لاہور(لاہور نامہ) عوامی رکشہ یونین کے قائمقام چیئرمین حاجی رفاقت، مرکزی صدر ذیشان اکمل، مرکزی سیکرٹری جنرل وارث جوئیہ اور لاہور کے صدر عزیز عباسی نے جوہر ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن لگانا چاہتی ہے.
بے شک لگائے ہم عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔لیکن رکشہ ڈرائیوروں اور کروڑوں دیہاڑی دار مزدوروں کے لئے اتنے عرصہ تک راشن کا انتظام کردے۔ بجلی، پانی، گیس کے بل معاف کر دے۔ہمارے بچوں کی مفت تعلیم و علاج کا انتظام کردے۔
اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہمارے بچوں کو بھوکے مارنے کا حق حکومت کو کس نے دیا ہے۔ہمارا معاشی قتل کیا جارہا ہے ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہماری آمدن بند کی ہے تو کیاکورونا کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دنوں میں صدر پاکستان کی تنخواہ اور مراعات بند ہوں گی،
کیا وزیر اعظم اپنی تنخواہ اور مراعات لینا بند کردیں گے۔ کیا وفاقی اور صوبائی وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اعلیٰ بیورو کریسی کو تنخواہیں اورمراعات دینابند کر دی جائیں گی۔
اگر ایسا ہوا تو یہ لوگ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وہ چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے اوپر لگائے جانے والی کوئی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ ان کی تنخواہیں لاکھوں میں، بجلی، گیس، پانی کے بل معاف، لگژری گاڑیاں،پٹرول مفت کا، کئی کنالوں پر بنی رہائشگاہیں اور نوکر چاکر مفت۔ سب پابندیاں صرف غریبوں کے لئے ہیں۔
جب چاہتے ہیں غریب کا حقہ پانی بند کر دیتے ہیں۔عمران خان دو نہیں ایک پاکستان کا وعدہ پورا کریں۔ حکومت سب کی مراعات اور تنخواہیں بند کرے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ہم بھی سب کچھ چپ چاپ برداشت کرلیں گے۔ اگر دوغلی پالیسی اپنائی جائی گی۔ تو کشکول بردار ریلیاں وزیر اعظم کے آبائی گھر زمان پارک، گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کمشنر آفس تک نکالی جائیں گی۔
اگر حکومت ہمیں بھکاری بنانے پر تلی ہوئی تو ہم بھی احتجاجا کشکول پکڑ کر ریلیاں نکالیں گے۔ اور حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائیں گے۔اس حکومت کا ہر عمل غریبوں پر عذاب بن کر نازل ہوا ہے۔لاک ڈاؤن لگے کا تو ہم بچوں کیلئے راشن کیسے خرید سکیں گے۔ رکشہ ڈرائیور اگر ایک ہزار کماتا ہے تو 300روپے رکشہ کے مالک کو کرایہ ادا کرتا ہے۔
350روپے کا پٹرول خرچ کرتا ہے۔ پھر جا کر اس کو تین چار سو روپے بچتے ہیں۔ جن سے اپنے سارے خرچے کرتا ہے۔ مہنگائی نے تو پہلے ہی ہمیں سولی پر لٹکایا ہوا ہے۔ اب غریبوں پر کورونا بھی چڑھ دوڑا ہے۔ یہ ساری پابندیاں پوش علاقوں میں رہنے والی الیٹ کلاس کو بچانے کیلئے لگائی جا رہی ہیں۔ غریب آدمی سے کورونا نے کیالینا ہے۔
ہم تو سارا دن دھول،مٹی، دھواں اور ملاوٹ شدہ خوراک کھاتے ہیں۔گندگی سے بھری ہوئی تعفن زدہ آبادیوں میں رہتے ہیں۔سرکاری نلکوں سے آنے والا سیورج ملا گندہ پانی پیتے ہیں۔کوڑے کے ڈھیروں پر امراء کی جانب سے پھینکی جانے والی کھانے پینے کی اشیاء کھا کر بھوک سے لڑتے ہیں۔
لنڈے سے خریدے ہوئے پرانے کپڑوں سے تن ڈھانپتے ہیں۔عمران خان آپ نے مدینے والے کی ریاست بنانے کا جھانسا دے کر غریب کو دھوکا دیا ہے۔آج نہیں تو کل مدینہ والا ضرور پوچھے گا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر رکشہ ڈرائیور اور دیہاڑی دار مزدور کیلئے حکومت راشن پیکج کا اعلان کرے۔تمام بل معاف کئے جائیں تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں مفت دی جائیں۔ورنہ ہر حکمران کے دفتر اور گھر کے باہر کشکول اٹھا کر احتجاج کریں گے۔