سورج کی حرارت روکنے کا منصوبہ کیا ہے اور اسے کیسے کامیاب بنایا جائے؟

دنیا میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ترقی پزیر ممالک کے چند سائنسدانوں نے کچھ عرصے پہلے سورج کی حرارت کو روکنے کا ایک منصوبہ بنایا تھا جسے ‘سولر جیو انجینئرنگ’ کا نام دیا گیا۔

اس تکنیک کے مطابق اگر زمین کے ماحول میں ایک مناسب بلندی پر جسے سائنسی اصطلاح میں ‘اسٹریٹو سفیئر’ کہا جاتا ہے، ایرو سول پارٹیکلز (ذرات) کا چھڑکاؤ کیا جائے تو اس سے سورج کی روشنی و حرارت پر کسی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔

سولر جیو انجینئرنگ پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اسٹریٹو سفیئر میں تقریبا 50 میگا ٹن تک سلفر ڈائی آکسائیڈ کا اسپرے کیا جائے جو ماؤنٹ پینا ٹوبو سے خارج ہونے والی سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سے 4 گنا زیادہ مقدار ہے۔

اس طرح تقریبا 2 سال تک زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہوگا اور گلوبل وارمنگ کی بدولت ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو کچھ عرصے کے لیے روکا جا سکے گا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق گیرناٹ ویجنر کے مطابق یہ طریقہ کار سستا ہو نے کے باعث قابل عمل ہے اور اندازاََ اس پر 2 کروڑ ڈالر کا خرچ آئے گا جو گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے دیگر انتظامات اور تکنیک کی نسبت بہت سستا ہے جن پر ہر برس تقریبا 500 کروڑ ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔

اگرچہ یہ تصور نیا نہیں ہے اور تقریبا ایک عشرے سے سولر جیو انجینئرنگ کی تکنیک پر تحقیقات کی جارہی ہیں اور ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس سے ایشیا کے خطے میں بارشوں کا سبب بننے والا مون سون کا نظام تبدیل ہوسکتا ہے۔

مگر گزشتہ 5 سال سے ایشیائی ممالک میں بارشیں ویسے ہی بے قاعدگی کا شکار ہیں اور کچھ علاقوں میں حد سے زیادہ تو کہیں نہ ہونے کے برابر بارشیں برسنے لگی ہیں، اس کے باوجود سولر جیو انجینئرنگ کا آئیڈیا ابھی تک متنازع ہے اور ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ محض ایک عارضی حل ہے جس کے وقت کے ساتھ ساتھ نقصانات سامنے آئیں گے اور گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچے گا۔

اس کے علاوہ اسٹریٹو سفیئر میں اتنی زیادہ مقدار میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا چھڑکاؤ کر نے سے نہ صرف خشک سالی میں اضافہ ہوگا بلکہ کھڑی فصلوں پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے، جس سے غذائی قلت کے علاوہ کینسر سمیت متعدد دیگر امراض کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات کو بھی ہر گز رد نہیں کیا جاسکتا، اسی لیے 2018 کے اواخر میں تقریبا 100 سول سوسائٹیز نے سولر جیو انجینئرنگ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا کہ یہ تکنیک زمین پر بسنے والے جانداروں کے لیے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔

مگر اس تکنیک کے حق میں دلائل دینے والے سائنسدانوں اور ماہرین کا مؤقف ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ دن بدن اس قدر سنگین ہوتا جارہا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں اور یہی صحیح وقت ہے جب دنیا بھر کے ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر کسی ایک فیصلے تک پہنچیں۔

اس حوالے سے چند ماہرین نے یہ تحفظات بھی پیش کیے کہ اس تکنیک سے دنیا بھر کے ممالک میں فضائی حدود کی خلاف ورزی جیسے سنگین مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں کیوں کہ بہت سے ممالک کی حکومتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں مگر ایک خاص بلندی پر اسٹریٹو سفیئر میں اتنی مقدار میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا چھڑکاؤ اگر کمرشل جیٹ جہازوں کے ذریعے کیا گیا تو یہ ذرات کچھ ہی دن میں ہر جانب آزادانہ بکھر کر معدوم ہو جائیں گے، لہذاٰ ضروری ہے کہ یہ چھڑکاؤ مخصوص قسم کے نئے تیار کردہ جہازوں یا ایئر کرافٹ کے ذریعے کیا جائے جو ان ذرات کو محض 20 کلومیٹر یا 12 میل کی بلندی پر اس طرح منتشر کریں گے کہ تقریبا ایک سال تک بادلوں کی موٹی تہہ کی طرح چھائے رہیں گے اور اس مقصد کے لیے راکٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس سے پراجیکٹ کی لاگت بہت زیادہ بڑھ جانے کا امکان ہے، لہذاٰ وہ ممالک جو تکنیک کے حق میں ہیں انہیں 4 انجنوں والے ایسے جہاز ڈیزائن کروانا ہوں گے جن کے پر (ونگ) کافی زیادہ بڑے ہوں چونکہ 12 میل کی بلندی پر ہوا کا دباؤ سطحِ سمندر کی نسبت گھٹ کر محض 7 فیصد رہ جاتا ہے، اس لیے اس تکنیک کے لیے استعمال ہونے والے جہازوں کے ونگز کا لمبا ہونا انتہائی ضروری ہے۔

سولر جیو انجینئرنگ پر کام کرنے والے انجینئرز کے مطابق انہوں نے 15 سال کے دورانیے پر مشتمل ایک مکمل پلان تشکیل دیا ہے جس میں ان جہازوں کی تیاری، مرمت، سالانہ دیکھ بھال سمیت تمام اخراجات شامل کیے گئے ہیں، اس منصوبے کے مطابق سلفر ڈائی آکسائیڈ کا اسپرے کرنے کے لیے ابتدا میں ہر برس 400 فلائٹس بھیجی جائیں گی جو آہستہ آہستہ بڑھا کر تقریبا 60 ہزار تک کر دی جائیں گی لیکن ان فلائٹس کی تعداد ابھی تک حتمی نہیں ہے کیوں کہ انہیں خفیہ نہیں رکھا جاسکتا اور اس کے لیے دیگر ممالک سے فضائی حدود کی ا جازت بھی لینی ہوگی ورنہ کوئی بڑا تنازع بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ سولر جیو انجینئرنگ ایک ایسی نئی جہت ہے جس پر ابھی مزید بہت سا کام اور تحقیق کرنا ضروری ہے، اس کے صرف اس پہلو کو سامنے رکھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے مستقبل میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں کیوں کہ اس تکنیک کا بنیادی نکتہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنا اور فضا میں کاربن کی مقدار کو ایک مخصوص حد تک رکھنا ہے، لہذاٰ اسے فوری طور پر گلوبل کلائیمیٹ پالیسی کا حصہ بنانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی سولر جیو انجینئرنگ کی تکنیک پر عمل کرنے سے پہلے دنیا بھر کے ممالک کو پیرس ایگریمنٹ کی طرح کا کوئی معاہدہ کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں اس کے مضر اثرات کسی بڑے جھگڑے یا عالمی جنگ کا سبب نہ بن جائیں کیوں کہ ہر ملک کی اپنی فضائی حدود ہیں، اس کے علاوہ کون سے علاقوں میں سلفر کی کتنی مقدار کا سپرے کرنا ہوگا، اس کا فیصلہ بھی ایک مشکل امر ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا اس تکنیک سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو تو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکے گا مگر دوسری جانب اس کے باعث رو نما ہونے والی دیگر موسمیاتی تبدیلیاں، جیسے زمینی و جنگلی حیات کو در پیش خطرات، ساحلوں کا کٹاؤ اور براعظم انٹارکٹیکا کی تیزی سے پگھلتی برف اور متعدد بڑے شہروں کے غرق آب ہونے کے جو خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں، وہ کہیں حقیقت ہی نہ بن جائیں اور صورتحال بلکل ہی بے قابو نہ ہو جائے، لہذا اس کے لیے طویل تحقیق اور ابتدا میں چھوٹے پیمانے پر تجربات کی ضرورت ہے۔