گھوٹکی (لاہورنامہ)گھوٹکی کے ریتی ریلوے اسٹیشن کے قریب کراچی آنے والی سرسید ایکسپریس ٹریک پرموجود ملت ایکسپریس سے ٹکراگئی جس کے نتیجے میں 36افراد جاں بحق جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں.
حادثے کے بعد اپ اور ڈائون ٹریکس پر ٹرینوں کی آمدورفت روک دی گئی، وزیراعظم نے گھوٹکی حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جامع انکوائری کا حکم دے دیا،
وزیر ریلوے نے بھی ٹرین حادثے پر نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں انکوائری کا حکم دے دیا، حادثے کے وقت زیادہ تر مسافر سورہے تھے جبکہ ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی ریلوے کا عملہ جائے حادثہ پر نہیں پہنچ سکا.
جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تر ملت ایکسپریس میں سوار تھے جبکہ سرسید ایکسپریس کے زیادہ مسافر زخمی ہوئے ہیں۔زخمیوں کو فوری طبی امداد کے لئے تعلقہ اسپتال روہڑی، پنوعاقل، سول اسپتال سکھر، صادق آباد اور رحیم یار خان منتقل کیا گیا۔
زیادہ تر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا۔ آبادی دور ہونے اور کچے راستے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کی معلومات کیلئے کراچی، سکھر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ لائن سینٹر قائم کردیئے گئے ہیں،
وزیراعظم عمران خان،سابق صدر آصف علی زرداری،چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ،گورنرسندھ عمران اسماعیل ، وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ،وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ ،سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اسماعیل راہو اور منظور وسان نے ٹرین حادثے میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ڈی ایس ریلوے سکھر کے مطابق ٹرین حادثے میں 14بوگیاں متاثر ہوئیں جبکہ 3مکمل طور پر تباہ ہوئیں،9بوگیاں ملت ایکسپریس کی حادثے میں متاثرہوکر پٹڑی سے اترگئیں۔
ڈپٹی کمشنرگھوٹکی عثمان عبداللہ نے ٹرین حادثے میں 30سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے، خاتون سمیت7افراد کی لاشیں اوباڑو اسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔ڈی سی گھوٹکی عثمان عبداللہ نے بتایا کہ حادثے میں30مسافرجاں بحق جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کیلئے مقامی اسپتال منتقل کردیا گیاہے۔
انہوں نے بتایا کہ متاثرہ بوگیوں میں بہت سے مسافر پھنسے ہوئے ہیں، پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کیلئے ہیوی مشینری،کٹر درکار ہیں، راستہ خراب ہونے کے باعث مشینری منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ذرائع کے مطابق ملت ایکسپریس میں مجموعی طور پر706مسافر سوارتھے،
حادثے کا شکار سر سید ایکسپریس میں 504 مسافر سوار تھے، بدنصیب مسافروں پر صبح ساڑھے پانچ بجے قیامت ٹوٹی جب وہ نیند میں تھے۔حادثے کو4گھنٹے سے زائد کاوقت گزرنے کے بعد بھی ریلیف ٹرین موقع پر نہ پہنچ سکی، پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کیلئے چھوٹی مشینری کے ذریعے بوگیوں کو کاٹاگیا۔
اس حوالے سے ریلوے حکام نے بتایاکہ مذکورہ حادثہ ریتی اور ڈہرکی ریلوے اسٹیشن کے درمیان علی الصبح پیش آیا، ملت ایکسپریس بوگیاں ڈی ریل ہونے پر پٹڑی پر کھڑی تھی اس دوران کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس ٹریک پرموجود ملت ایکسپریس سے ٹکرائی۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے کے مطابق حادثے کا شکار ملت ایکسپریس کراچی سے سرگودھا جارہی تھی، حادثے کے بعد متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر کر الٹ گئیں۔ذرائع کے مطابق جائے حادثہ پر چیخ و پکار مچ گئی، ریسکیو ٹیموں کے علاوہ مقامی افراد بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے، ٹرین حادثے کے متاثرین کو منتقل کرنے کا فوری طور پر کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا،
بعد ازاں اہل علاقہ ٹریکٹرٹرالیوں میں متاثرہ مسافروں کو شہر کی طرف منتقل کرنے لگے۔ترجمان ریلوے نے بتایاکہ روہڑی سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ روانہ کردی گئی ہے، ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی معلومات کیلئے کراچی، سکھر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ لائن سینٹر قائم کردیا گیا ہے۔ریلوے حکام کے مطابق زخمیوں کو تعلقہ اسپتال روہڑی، پنوعاقل اور سول اسپتال سکھر منتقل کیا گیا ہے،
زیادہ تر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا، متاثرہ مسافروں کو صادق آباد ریلوے اسٹیشن روانہ کردیا گیا ہے۔ڈی آئی جی سکھر فدا مستوئی نے میڈیا کو بتایا کہ ٹرین حادثے میں 50سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، بوگیوں میں پھنسے ہوئے مسافروں کی تعداد کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈی ایس ریلوے سکھر طارق لطیف نے بتایاکہ ایک ماہ قبل تحریری طور پر حکام کو آگاہ کر دیا تھا کہ سکھر ڈویژن میں 13 مقامات پر ٹریک کی حالت ٹھیک نہیں، ان 13 مقامات میں جائے حادثہ کا مقام بھی شامل ہے۔ زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
ترجمان ریلوے کے مطابق ٹرین حادثہ رات 3 بج کر 45 منٹ کے قریب ہوا، ملت ایکسپریس حادثے کے فوری بعد سرسید ایکسپریس ٹریک پر گری بوگیوں سے جاٹکرائی، ملت ایکسپریس کے ڈرائیور کو کمیونیکیشن سسٹم دستیاب ہے، سرسید ایکسپریس نے ولہار سٹیشن کو 3 بج کر 25 منٹ پر کراس کیا، ملت ایکسپریس نے ڈہرکی کو 3 بج کر 30 منٹ پر چھوڑا، ماچھی گوٹھ سے ڈہرکی تک ٹریک بوسیدہ اور مرمت کرنے والا ہے۔ٹرین حادثے کے ایک زخمی مسافر نے بڑا انکشاف کیا کہ ملت ایکسپریس کا کلمپ پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا تھا،
جس کا ریلوے حکام کو علم تھا، اسی وجہ سے ٹرین لیٹ ہوئی اور کراچی کینٹ سٹیشن پر کھڑی رہی۔ مرمت کے بعد ٹرین روانہ کی گئی، تاہم ڈہرکی کے قریب اتنا بڑا حادثہ پیش آگیا۔ترجمان سندھ رینجرز نے بتایا کہ حادثے کے کچھ دیر بعد رینجرز کے جوانوں پر مشتمل ٹیمیں بھی جائے حادثہ پہنچیں،
رینجرز کے جوان ریسکیو ٹیموں کے ساتھ امدادی کاموں میں مصروف رہے، زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کیلئے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔حادثے میں ریلوے پولیس کے دو اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق اہلکاروں میں علی ناصر اور دلبر شامل ہیں۔ دونوں اہلکار سرسید ایکسپریس میں ڈیوٹی پر تعینات تھے۔ذرائع نے بتایا کہ کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی 6 بوگیاں ٹریک سے اتر کر دوسری ٹریک پر چلی گئیں،
اسی اثنا میں مخالف سمت سے آنے والی سر سید ایکسپریس بھی پہنچ گئی اور ملت ایکسپریس کی اتری ہوئی بوگیوں سے ٹکرا گئی۔حادثے کے نتیجے میں سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹرینوں کی آمد و رفت معطل ہوگئی ہے۔ ریلوے انتظامیہ نے بتایاکہ پہلے زخمیوں کو نکال کر بوگیوں کو ہٹایا جائے گا، اس کے بعد ہی ٹرینوں کی بحالی کا عمل شروع کیا جاسکے گا۔سرسید ٹرین کو باقی مسافروں کے ساتھ صادق آباد ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے ٹرین حادثے پر نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرین حادثے کے بعد ریلیف اور ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا، آرمی اور رینجرز کے دستے ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، پنو عاقل سے پاک فوج کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف جائے حادثہ پر پہنچ چکا ہے، ریسکیو کے لئے آرمی انجینئرز کے وسائل بھی بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ادھر سکھر حادثے کے بعد ٹرینوں کو مختلف سٹیشنوں پر روک لیا گیا۔ پشاور جانے والی خیبر میل کو رانی پور سٹیشن پر روک لیا گیا۔ لاہور جانے والی گرین لائن گمبٹ ریلوے سٹیشن، زکریا ایکسپریس گھوٹکی، سر سید ایکسپریس کو پنوعاقل میں روک لیا گیا جبکہ فرید اور شاہ حسین ایکسپریس روہڑی ریلوے سٹیشن پر موجود تھیں۔رحمان ایکسپریس کو رحیم یار خان ریلوے سٹیشن پر روک لیا گیا۔ لاہور جانے والی شاہ حسین ایکسپریس کو ڈیرہ نواب صاحب پر روک لیا گیا۔
کراچی جانے والی عوامی ایکسپریس لیاقت پور ریلوے سٹیشن پر موجود تھی۔حادثے کے حوالے سے سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور اعجاز احمد نے بتایا کہ حادثہ صبح 3 بجکر 45 منٹ پر ہوا، میں اور میرا اسسٹنٹ ڈرائیور افتخار چاک وچوبند تھے۔ڈرائیور اعجاز احمد کے مطابق ڈائون ٹریک پر اپنے سامنے بوگیاں گری دیکھ کر ہم نے ہنگامی بریک لگائی، تاہم اس کے باوجود حادثہ ہو گیا.