اسلام آباد (لاہورنامہ)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی اور الیکشن ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کر دئیے. پیکا آرڈیننس میں ”شخص”کی تعریف شامل کر دی گئی ہے جس کے مطابق ”شخص”میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے .
ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے،شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا،ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ کو جمع کرائے گی، ہائیکورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی.
وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا، ہر ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا،تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے ممبران الیکشن مہم کے دوران تقریر کر سکیں گے، کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمائندے حلقے کا دورہ کر سکیں گے۔اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کردیا۔
صدر مملکت کی جانب سے جاری کردہ پاکستان الیکٹرانک ایکٹ ترمیمی آرڈیننس میں ایک شخص کی تعریف شامل کردی گئی ہے۔آرڈیننس کے مطابق نئے شخص کی تعریف میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہیں۔آرڈیننس کی سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا سرپرست ہوگا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔
اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ مقدمہ جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو وہ رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔آرڈیننس میں کہا گیا کہ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی وژن پر کسی بھی فرد کے بارے میں فیک نیوز(جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائمز تصور کی جائے گی۔
جعلی خبر چلانے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔مقدمہ کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر کرنا ہو گا اور مقدمے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ ہر ماہ متعلقہ ہائی کورٹ کو آگاہ کرے گی۔ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو گا کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔مذکورہ آرڈیننس کو امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022 کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
اس کے علاوہ صدر مملکت عارف علوی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس بھی جاری کردیا۔آرڈیننس کے تحت تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے اراکین الیکشن مہم کے دوران تقاریر کرسکیں گے اور پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمائندے حلقے کا دورہ کر سکیں گے۔واضح رہے کہ آج وزیر قانون فروغ نسیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہوگی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پیکا قانون سب کے لیے ہوگا، معروف شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے، حکومت پہلی بار جرنلسٹس پروٹیکشن بل لائی ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سال سے 5 سال تک ہے، اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔یاد رہے کہ پیکا، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھاتاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کے حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔ٹیکنالوجی کی کمپنیوں نے بھی پاکستان میں اپنی خدمات ختم کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر قواعد میں تبدیلی نہیں کی گئی تو انہیں اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوگا۔بعد ازاں اس قانون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا اور پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت قواعد پر نظرثانی کے لیے تیار ہے۔مارچ 2021 میں وزیر اعظم عمران خان نے متنازع سوشل میڈیا قواعد پر نظرثانی کے لیے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دے دی۔مذکورہ کمیٹی نے اگست تک قواعد تیار کرلیے اور 23 ستمبر کو کابینہ کمیٹی برائے قانون سیمنظور کروالیا گیا۔وفاقی کابینہ نے 29 ستمبر کو ڈیجیٹل میڈیا رولز میں ترامیم کی منظوری دے دی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے 14 نومبر کو نوٹیفائی کردیا تھا۔