بیجنگ (لاہورنامہ)چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ مختلف ممالک ایک ہی کشتی پر سوار ہیں ، سردجنگ کے نظریات دنیا کے امن کو نقصان پہنچائیں گے،بالادستی اور جبر کی سیاست عالمی امن کو تباہ کرے گی ، گروہی محاذآرائی، سکیورٹی چیلنجز کو مزید سنگین بنائے گی، علاقائی تنازعات اور دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، سائبر سکیورٹی، اور بائیو سکیورٹی سمیت عالمی مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا چاہیئے۔
جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق ان خیا لات کا اظہار چینی صدر نے بو آؤ ایشیائی فورم کی افتتاحی تقریب میں ویڈیو لنک کے ذریعے اہم خطاب میں کیا۔
شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں نشاندہی کی کہ بنی نوع انسان کا ایک ہم نصیب معاشرہ ہے ۔انسانی تاریخ نے بتایا ہے کہ مشکل جتنی ہو ،اتنا ہی اعتماد کو مضبوط بناناچاہیئے۔
اختلافات خطرناک نہیں ہوتے اور اختلافات ہی انسانی سماج کو آگے بڑھانے کی ایک قوت ہیں۔مختلف ممالک کو مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور مستقبل کے لیے تعاون کرنا چاہیئے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ دنیا کی مشترکہ سلامتی کے فروغ کی خاطر ،چین عالمی سیکورٹی انیشیٹو پیش کرتا ہے : ہمیں مشترکہ، جامع، تعاون اور استحکام پر مبنی سلامتی کے تصور پر قائم رہنا چاہیئے اور مشترکہ طور پر عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے؛
مختلف ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور مختلف ممالک کے عوام کی طرف سے ترقیاتی راہ کے آزادانہ انتخاب اور سماجی نظام کا احترام کرنا چاہیئے؛ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہیئے، یکطرفہ پسندی کی مخالفت کی جانی چاہیے، گروہی سیاست اور "کیمپس کی محاذآرائی” سے باز رہنا چاہیئے؛ تمام ممالک کے مناسب سکیورٹی خدشات و تحفظات کواہمیت دینی چاہیئے،
سکیورٹی کے ناقابل تقسیم ہونے کے اصول کو برقرار رکھنا چاہیئے، ایک متوازن، موثر اور پائیدار سکیورٹی ڈھانچہ بنانا چاہیئے اور دوسرے ممالک کے عدم تحفظ پر اپنی سلامتی کی بنیاد رکھنے کی مخالفت کرنی چاہیئے، بات چیت اور مشاورت کے ذریعے مختلف ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے پرامن حل پر عمل کرنا چاہیئے، ان تمام کوششوں کی حمایت کرنی چاہیئے جو بحرانوں کے پرامن حل کے لیے سازگار ہوں، دوہرے معیار پر عمل نہیں کرنا چاہیئے،
یکطرفہ پابندیوں اور "لمبے ہاتھ کے دائرہ اختیار” کے غلط استعمال کی مخالفت کرنی چاہیئے؛ روایتی اور غیر روایتی شعبوں میں سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مجموعی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہیئے نیز علاقائی تنازعات اور دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، سائبر سکیورٹی، اور بائیو سکیورٹی سمیت عالمی مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا چاہیئے۔
شی جن پھنگ نے زور دیا کہ عالمی برادری ایک پیچیدہ ارتقائی اتحاد بن چکی ہے جو کہ ایک مشین جیسا ہے،کسی بھی پرزے کی خرابی یا کمی سے پوری مشین کو شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات پر مبنی عالمی گورننس کے تصور پر عمل کرنا چاہیئے،انسانیت کی مشترکہ اقدار کو بروئے کار لانا چاہیئے اور مختلف تہذیبوں کے درمیان تبادلوں کو فروغ دینا چاہیئے۔
حقیقی کثیرالجہتی پر ثابت قدم رہنا چاہیئے ،اقوام متحدہ کی مرکز یت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور قوانین کی بنیاد پر بین الاقوامی نظم و نسق کا بھرپور تحفظ کیا جانا چاہیئے۔بڑے ممالک کو مساوات ،تعاون ، دیانت داری اور قانونی انتظام کے لیے رہنما اوربہترین مثال بننا چاہیئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایشیائی ممالک کے عوام امن اور ترقی کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ عشروں میں ایشیائی ممالک میں مجموعی طور پر استحکام رہا اور اقتصادی ترقی کی رفتار مسلسل تیز ہو رہی جو ایک "کرشمہ”بن چکا ہے۔
انہوں نےاس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ایشیا کو دنیا میں امن و امان،ترقی اور تعاون کا ایک اہم علاقہ بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح الفاظ میں کہا کہ خطے میں امن و استحکام آسمان سے نہیں ٹپکا اور نہ ہی یہ کسی ملک نے خیرات میں دیا ہے بلکہ یہ خطے کے ممالک کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
آج، ایشیا کی طرف سے شروع کردہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول اور "بانڈونگ سپرٹ” کی اور بھی زیادہ حقیقی اور عملی اہمیت ہے۔
ہمیں باہمی احترام، مساوات اور باہمی فوائد اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو برقرار رکھنا چاہیے، اچھی ہمسائیگی اور دوستی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ بات چیت اور تعاون کے ذریعے زیرو سم گیمز کو تبدیل کرنا،امتیاز اور پابندیوں کو کھلے پن اور شراکت داری سے تبدیل کرنا،انابرستی کو تبادلے اور باہمی سیکھ سے بدلنا،یہ سب وہ ذہنی وسعت اور رواداری ہے جو ایشیا میں ہونی چاہیے۔
خطے کے اندر اور باہر تمام ممالک خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور، ان سب کو چاہیے کہ وہ افراتفری پیدا کیے بغیر ایشیا کی خوبصورتی میں اضافہ کریں۔
ان سب کو پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے، باہمی استفادے پر مبنی تعاون کے لیے کوشش کر نی چاہیئے اور ایک متحد اور ترقی پسند ایشیائی خاندان تشکیل دینا چاہیے۔