واشنگٹن (لاہورنامہ)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت کیلئے سیاسی ساکھ بحال کرنے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے 10 ماہ کافی ہیں.
عمران خان غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں جس سے امریکا کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا ہے،پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انتہائی مضبوط اور محفوظ ہے،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کیے وعدے پورے کیے جائیں گے،ڈونرز کو ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کوئی اعتراض نہیں ،بجٹ ریفارمز میں 15 سے 20 فیصد تک کام رہ چکا ہے،توانائی سیکٹر میں ریفارمز کا عمل بھی جاری رہیگا،فیٹف کی میٹنگ ہونے والی ہے.
امید ہے پاکستان گرے لسٹ سے نکل آئیگا،ورلڈ بینک اور دیگراداروں نے سیلاب سے 32.4 ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے،سیلاب سے بحالی کیلئے پاکستان پہلے ہی کام کر رہا ہے،اب تک سیلاب سے بحالی پر 99 ارب روپے لگائے جا چکے ہیں اور مزید کام جاری رہیگا۔
پاکستانی سفارت خانے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہو ں نًے کہا کہ ہمیں اپنی سیاست بچانے یا ریاست بچانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا اور ہم نے ریاست کو بچانے کا انتخاب کیا، ہم جانتے تھے کہ اس فیصلے کے ہماری سیاست پر منفی نتائج ہوں گے ۔
ضمنی انتخاب کے نتائج پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا کہ جو جماعتیں اس حکومت میں شامل ہیں وہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے نتائج سے آگاہ تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایسا کیا کیونکہ یہ جماعتیں اگر ایسا نہ کرتیں تو اس کے پاکستان کیلئے تباہ کن نتائج ہوتے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کو جاری رہنے دینا سیلاب سے بھی بدتر ہوتا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق صدر جو بائیڈن کے بیان سے عمران خان کی انتخابی مہم کو تقویت ملی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ ملک میں مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے اور امریکی حکام بھی اکثر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن جب کوئی سیاست دان جیسے کہ عمران خان جو خود وزیر اعظم رہ چکے ہیں جب اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ میرے دور میں جوہری پروگرام اچھا تھا لیکن اب نہیں تو پھر دنیا اسی طرح کا ردعمل ظاہر کریگی، آپ کو اس کی مذمت کرنی چاہیے، وہ بہت گری ہوئی سیاست کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ واشنگٹن میں اپنے 4 روزہ قیام کے دوران انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں اور امریکی، سعودی اور دیگر ممالک کے حکام سے 58 ملاقاتیں کیں، انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک اور برطانیہ نے سیلاب سے متعلق گول میز کانفرنس کی بھی میزبانی کی جہاں یو این ڈی پی، اے ڈی بی اور ڈبلیو بی کے حکام نے مشترکہ رپورٹ پیش کی۔
پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پاکستان کو مجموعی طور پر 32 ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے، پاکستان کو فوری امداد اور بحالی کے کاموں کے لیے 16 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ نے بتایا کہ اجلاس کے دوران عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کرنے کی پرزور اپیل کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام جون 2023 تک مکمل کر لے گا اور اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرے گا۔اسحق ڈار نے کہا ہم اصلاحات کے لیے پرعزم ہیں، تقریبا 5 سے 10 فیصد کام زیر التوا ہے جو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
اپنے قیام کے دوران اٹھائے گئے سبسڈیز پر آئی ایم ایف کے اعتراض کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونرز کو ٹارگٹڈ سبسڈیز پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ عام سبسڈی کے خلاف ہیں۔انہوں نے کہاکہ اپنے اعتراض میں آئی ایم ایف حکام شاید بجلی کی سبسڈی کا حوالہ دے رہے تھے جو ہم نے دی تھی، یو این جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف کے سربراہ سے اس معاملے پر بات کی اور اس پر فیصلہ کرنے کو کہا، انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا، ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا لیکن ہم ان سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ قیمتوں میں کمی کے لیے واشنگٹن نہیں آئے، ایسے فیصلے ہم اپنے ملک میں ہی کرتے ہیں۔