آبادی کے لحاظ

رواں سال چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک نہیں رہے گا،اقوام متحدہ

نیو یارک (لاہورنامہ)اعلیٰ معیارکی آبادی چین کی اعلیٰ معیاری ترقی کو فروغ دیتی رہے گی۔حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک نہیں رہے گا ۔

کچھ حلقوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ چین "ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ”کھو دے گا۔درحقیقت چین میں تقریباً نوے کروڑ افرادی قوت ہے اور اس میں ہر سال ڈیڑھ کروڑ کا اضافہ ہوتا ہے۔محنت کشوں کی مجموعی تعداد کا کل آبادی میں تناسب نسبتاً بلند معیار پر رہا ہے،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ بدستور موجود ہے۔

مزید اہم بات یہ کہ اعلیٰ معیارکی آبادی چین کی اعلیٰ معیاری ترقی کو فروغ دیتی رہے گی۔چینی معیشت افرادی قوت کے بجائےسائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اختراعات پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہے۔اس کا اندازہ چینی لوگوں کی روزمرہ زندگی سے لگایا جا سکتا ہے۔

سپر مارکیٹ میں لوگ کیشیئرز کی مدد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت خریداری کرتے ہیں،ریستوران میں کیو آر کوڈ اسکین کرتے ہوئے ویٹرز کے بغیر آرڈرز کرتے ہیں،اور اسی طرح دیہات میں ہزار ہیکٹر کھیتوں کا انتظام ایک ہی ہنرمند کسان جدید مشین کی مدد سے کر سکتا ہے۔

تیزرفتاری سے ترقی کرنے والی سائنس و ٹیکنالوجی کی رہنمائی میں آبادی کی کل تعداد اقتصادی ترقی کی اہم ترین شرط نہیں رہی ،بلکہ محنت کشوں کا تعلیمی معیار اور ہنر مندی میں بہتری لازم ہے۔اسی وجہ سے حالیہ برسوں میں چین آبادی کے معیار میں بہتری کو نمایاں اہمیت دیتا آیا ہے،افرادی قوت کے معیار اور لوگوں کی جامع صلاحیت کو مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

اس وقت، چین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ آبادی کی تعداد 240 ملین سے زیادہ ہے، اور نئی افرادی قوت کی اوسط تعلیمی مدت 14 سال تک پہنچ گئی ہے. اعلیٰ معیار کی آبادی، اعلیٰ معیار کی ترقی کے لئے ایک ٹھوس دانش مندانہ بنیاد فراہم کرتی ہے.

مزید اہم بات یہ ہے کہ کھلے رویوں کی حامل آبادی پائیدار ترقی کے لیے ایک مثبت اور لچکدار سماجی ماحول فراہم کرتی ہے۔ڈرونز کے ذریعے بوائی سے انٹرنیٹ شاپنگ تک،نو کیش طرز زندگی سے شیئرنگ اکانومی تک،چینیوں کی زندگی میں نت نئی چیزیں آ رہی ہیں اور چینی شہری ان اختراعات کو کھلے دل و دماغ سے مسلسل قبول کر رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ بنیادی تنصیبات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے معیار کی ترقی سے دیہاتوں اور شہروں میں نئی چیزوں کی قبولیت کا معیار انتہائی متاثر کن ہے۔مثلاً،حالیہ برسوں میں تحفظ ماحول کے لیے شہروں میں نیو انرجی کاروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جب کہ دیہات میں بھی یہ رجحان سامنے آ رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق،سال 2022 میں فی چالیس ہزار یوان مالیت کی الیکٹرک گاڑیوں کی ماہانہ فروخت دس ہزار رہی ہے جس میں تقریباً نصف حصہ دیہات کا رہا ہے۔اس وقت ،دیہات میں لوگ انٹرنیٹ پر بھی زرعی مصنوعات فروخت کرتے ہیں،خریداری کرتے ہیں،تفریحی پروگرامز سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور تازہ ترین معلومات حاصل کرتے ہیں۔

اگرچہ آبادی کی تعداد افرادی قوت اور محرک اقتصادی ترقی کی قوت میں تبدیل ہو سکتی ہے،تاہم آبادی کا معیارمزید اندرونی پائیدار قوت فراہم کرتا رہے گا۔سی جی ٹی این کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 88.4 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ چین کے انسانی وسائل اعلیٰ معیار کی معاشی ترقی کی حمایت کرنے کے لئے کافی ہیں ، اور 91.8 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ "ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ” چین کی جامع قومی طاقت کے لئے ایک مضبوط محرک قوت فراہم کرتا رہے گا۔