لاہور (لاہورنامہ) شیزو فرینیا نفسیاتی بیماری ہے جس کی وجہ سے مریض کا ذہنی توازن اور سوچ بچار کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور مریض روزمرہ کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتا.
عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ مرض دنیا میں 300میں سے ایک شخص کو متاثر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف شیزوفرینیا کی بیماری قابل علاج ہے جس کے لئے بنیادی شرط ابتدائی وقت میں ہی تشخیص ضروری ہے۔
ان خیالا ت کا اظہار پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج و پی جی ایم آئی پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے شیزو فرینیا کے عالمی ہفتہ آگاہی کے سلسلے میں شعبہ امراض نفسیات کے زیر اہتمام لاہور جنرل ہسپتال میں منعقدہ واک کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر فائزہ اطہر، پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب، ایم ایس ڈاکٹر خالد بن اسلم،ڈاکٹر عرفان ملک،ڈاکٹر رضوان فاروق، ڈاکٹر انیلہ، ڈاکٹر نادیہ ارشد،ڈاکٹر فرحانہ،ڈاکٹر حراء ڈاکٹر اسماء، سینئر ڈاکٹرز، نرسنگ طالبات و میڈیکل سٹاف کے ممبران بڑی تعداد میں موجود تھے۔
شرکاء نے شیزوفرینیاکی بیماری سے بچاؤ،علامات اور آگاہی پمفلٹس اٹھا رکھے تھے۔ پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ شیزوفرینیا کا مریض اپنی عجیب و غریب حرکات و سکنات کے باعث عام لوگوں میں جناتی قوتوں کا زیر اثر سمجھا جاتا ہے جو سراسر بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر بیماریوں کی طرح شیزوفرینیا کے مریض کو بھی تعویذ دھاگے کی بجائے باقاعدہ علاج پر توجہ دینی چاہیے تاکہ مرض پر مزید بگاڑ پیدا نہ ہو اور اس کیلئے ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق ادویات کا استعمال اور مناسب پرہیز ضروری ہے۔
پروفیسر الفرید ظفر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اس بیماری میں مبتلا شخص نفرت کی بجائے ہمدردی و پیار کا مستحق ہوتا ہے لہذا ہمیں اس کی دلجوئی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے تاکہ مرض کی علامات میں مزید شدت پیدا نہ ہو۔
ان کا کہناتھاکہ اس بیماری کے ہونے کے امکانات بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ ہوتے ہیں تاہم یہ موروثی طور پر والدین سے اولاد میں بھی منتقل ہو سکتی ہے جس وجہ سے مریض ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور مختلف خیالوں میں گم رہتا ہے اور اُس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات آتے رہتے ہیں جس سے مرض میں شدت آتی ہے اور مریض بعض اوقات گھر والوں سے جھگڑا، چیخ و پکار بھی کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر فائزہ اطہر کا کہنا تھا کہ شیزوفرینیا کے مریضوں میں خودکشی کے امکانات عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں جو انتہائی خطرناک امر ہے، انہوں نے بتایا کہ شیزوفرینیا کی بیماری شروع ہونے کے بعد علاج میں جتنی تاخیر کی جائے اتنا ہی زندگی پرمنفی اثر ڈالتی ہے جبکہ اگر جلد از جلد علاج معالجہ شروع کیا جائے تو ہسپتال میں داخلے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فائزہ اطہر نے مزید بتایا کہ اگر شیزوفرینیا کے مریض کی گھر میں بھی بہتر طریقے سے نگہداشت کی جائے تو جلد صحت یابی اور نارمل زندگی گزارنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔