بیجنگ (لاہورنامہ)20 دسمبر انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہے۔ 22 دسمبر 2005 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں ہر سال 20 دسمبر کو انسانی یکجہتی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔
اس دن کا مقصد دنیا بھر کے ممالک میں غربت کے خاتمے، یکجہتی، سماجی ترقی اور بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔
اتحاد طاقت ہے، اتحاد امید ہے، اتحاد ایمان ہے، اتحاد کا مطلب مشترکہ مقصد کے حصول کی کوشش ہے۔ اگرچہ مختلف تہذیبوں اور تاریخی و ثقافتی پس منظر کے حامل ممالک میں اتحاد کی عمومی تفہیم پائی جاتی ہے، لیکن یہ رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عالمی سلامتی کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتی جا رہی ہے.
امیر اور غریب کے درمیان عالمی خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے، عالمی آب و ہوا کا چیلنج تیزی سے سنگین ہوتا جا رہا ہے، ” دیواریں”، "ڈی کپلنگ”، بلاک سیاست، بلاک محاذ آرائی اور اسی طرح کی دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔
اس کے پیچھے نہ صرف مفادات کا ٹکراؤ، جغرافیائی سیاسی مسابقت اور ممالک کے درمیان نظریاتی اختلافات ہیں بلکہ نامکمل عالمی حکمرانی کانظام اور معلومات کی غیر مساوی اور غیر ہموار ترسیل بھی موجود ہے، لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی مفادات سے متعلق بڑے معاملات سے نمٹنے میں مختلف ممالک کی پالیسیوں کے ابتدائی مقاصد اور کوشش میں فرق پایا جاتا ہے۔
لہذا، دنیا کو ایک نئے تصور کی اشد ضرورت ہے جو مختلف تہذیبوں اور تاریخی و ثقافتی پس منظر کے حامل ممالک کو افہام و تفہیم، اعتماد اور اتفاق رائے کی طرف لے جائے تاکہ تمام انسانیت کے اتحاد کو فروغ دیا جا سکے۔ یہی چین کی جانب سے پیش کردہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور ہے ۔
بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ کسی ایک ملک یا گروہ کے مفادات کے بجائے تمام انسانیت کے مشترکہ مفادات پر زور دیتا ہے۔ اس سے ممالک کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اکٹھے ہونے میں مدد ملتی ہے۔
انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا بنیادی تصور تعاون اور مشترکہ جیت پر مبنی ہے ، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام ممالک مساوی تعاون اور مشترکہ ترقی کے ذریعے مشترکہ خوشحالی حاصل کریں۔ اس سے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ختم کرنے اور عالمی معیشت کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
انسانیت کا ہم نصیب معاشرہ مشترکہ طور پر عالمی امن اور سلامتی کے تحفظ کی وکالت کرتا ہے، تنازعات کو بات چیت اور تعاون کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور دہشت گردی، بالادستی اور طاقت کی سیاست کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، جو بین الاقوامی انصاف کو برقرار رکھنے کے لئے سازگار ہے۔
انسانیت کا ہم نصیب معاشرہ مشترکہ ترقی پر زور دیتا ہے، ترقی کے ثمرات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے کی وکالت کرتا ہے، اور مختلف ممالک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے مشترکہ ترقی حاصل کرکے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کے درمیان فرق کو کم کریں.
انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر دنیا کے تنوع کے احترام کی وکالت کرتی ہے، مشترکہ اقدار کی وکالت کرتی ہے، اور امن، ترقی، انصاف، جمہوریت اور آزادی جیسی مشترکہ اقدار کی بنیاد پر مختلف ممالک کے مابین باہمی تفہیم اور اعتماد کو فروغ دیتی ہے.
تاریخی تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سرد جنگ یا گرم جنگ بنی نوع انسان کے لئے راستہ نہیں ہیں، اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر بہترین انتخاب ہے۔
گلوبلائزیشن کی مخالفت بنی نوع انسان کے لئے خوشحالی نہیں لائے گی، اور صرف معاشی عالمگیریت کے نئے دور کو فروغ دینے سمیت پائیدار ترقی پر عمل پیرا ہونے سے ہی انسانیت کو فوائد مل سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر شی جن پھنگ کا کہنا ہے کہ اپنی قومی ترجیحات کے نقطہ نظر سے، دنیا چھوٹی نظر آتی ہے، ہر وقت خطرات اور مسابقت کا سامنا ہے.
لیکن مشترکہ تقدیر کے نقطہ نظر سے، دنیا وسیع و عریض ہے اور ہر جگہ مواقع اور تعاون موجود ہے.
دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ، چین ہمیشہ غربت کے خاتمے کے عالمی نصب العین میں ایک فعال شراکت دار رہا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں چین نے 850 ملین افراد کو غربت سے نکالا ہے، جو دنیا کی غربت میں کمی کا 70 فیصد سے زیادہ ہے.
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے آغاز کے بعد سے گزشتہ 10 سالوں میں چین نے 152 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جن سے 3 ہزار سے زائد تعاون کے منصوبے شروع کئے گئے.
اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، دنیا بھر میں 4 لاکھ 20 ہزار ملازمتیں پیدا کی گئیں اور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں معاشی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ چین عالمی موسمیاتی تبدیلی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لیتا ہے اور نئی توانائی میں دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار ہے.
اور چین کی جانب برآمد شدہ پون بجلی اور فوٹووولٹک مصنوعات نے ترقی یافتہ ممالک کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو تقریباً 2.83 بلین ٹن تک کم کردیا ہے، جو اسی عرصے میں کاربن اخراج میں کمی کا 41 فیصد ہے. چین کی گرین ٹیکنالوجی نہ صرف اپنے لئے بلکہ دنیا کے لئے بھی توانائی کی منتقلی کے لئے ٹھوس مدد فراہم کرتی ہے۔
چین اپنے ٹھوس اقدامات کے ذریعے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنا کر انسانی یکجہتی کی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ آئیے ہم تمام انسانیت کے اتحاد اور ترقی کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کریں اور مشترکہ طور پر ایک زیادہ ہم آہنگ، مستحکم اور خوشحال دنیا بنائیں۔