لاہور(این این آئی)زراعت کی مصنوعاعت کوخام مال کی بجائے ویلیو ایڈیشن کے بعد ایکسپورٹ کیا جائے،شعبہ زراعت کی پیداوار میں اضافے کےلئے نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے،زراعت میں نئی طریقوں کو متعارف کروانے اور ریسرچ کے لئے انڈسٹری اور اکیڈمک روابط کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے،کیش کروپ اور گرین ہاوسز پر خصوصی توجہ دی جائے،آلودگی کے خاتمے اور کسانوں کے لیے نئی منڈیوں تک رسائی کے لیے حکومت خصوصی اقدامات کرے،کسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آگاہی پروگرامز کا اہتمام کیا جائے،پانی کی کمی کو مد نظر رکھ کر آبپاشی کے جدید طریقوں کو اپنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری( ایف پی سی سی آئی) کے ریجنل چیئرمین عبدالروف مختار اور سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے ایف پی سی سی آئی میں ’ ’بائیواکانومی“ کے عنوان سے منعقدہ خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عبدالروف مختار نے مزید کہاکہ بائیو ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
پانی کی کمی کو مد نظر رکھ کر آبپاشی کے جدید طریقوں کو اپنایا جائے۔شوگر انڈسٹری کو اپ گریڈ کیا جائے۔سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہاکہ موسمی تبدیلیاں کو مد نظر رکھا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔قدرتی وسائل کے موثر استعمال سے ملک کی خوشحالی کے لئے پائیدار حکمت عملی کو فروغ دینا ہو گا۔ زرعی ساخت میں استحکام کی تشخیص کےلئے جدید ٹیکنالوجی موجود ہے صرف استعمال کی ضرورت ہے۔بائیو باس کا استعمال مجموعی طور پر معیشت پر مثبت اثرات رکھتا ہے۔اےف پی سی سی آئی نائب صدر شیریں ارشد خاں نے کہاکہ بائیو اکانومی پاکستان کے معاشی بحران کو کم کر سکتی ہے۔پاکستان کواس وقت بد ترین معاشی مسائل کا سامنا ہے جو ہماری غیرتسلسل اور بری معاشی پالیسز کی وجہ سے ہے۔پاکستان میں زراعت کا شعبہ معاشی بحران کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔اجلاس کے شرکاءنے بھی بائیو ٹیکنالوجی کی اہمیت اورشعبہ زراعت کو درپیش مسائل کے حل اور معیشت کے بحران کے خاتمہ بارے اپنی اپنی تجاویز کا اظہار کیا۔