کراچی(اے این این ) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے آدھے سے زائد گھرانوں کو سنگین حد تک غذائی قلت کا سامنا ہے۔ معاشی حالات پر اپنی سہ ماہی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں غذائی قلت کے مسئلے پر خصوصہ روشنی ڈالی۔بلوچستان میں تقریبا 30 فیصد گھرانے فاقے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان میں 80 فیصد گھرانے غذا کے حوالے سے خوشحال ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ شرح 70 فیصد ہے۔خوفناک بات یہ ہے کہ ملک کے 36.9 فیصد غذائی قلت کا شکار گھرانوں میں سے 18.3 فیصد کو سنگین غذائی قلت کا سامنا ہے۔
صرف 63.1 فیصد ملک کے گھرانے غذا کے حوالے سے خوشحال ہیں۔در حقیقت وزارت صحت اور یونیسیف نیشنل نیوٹریشنل سروے 2018 کے مطابق پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا 8واں، چاول پیدا کرنے والا دنیا کا 10واں، گنے پیدا کرنے والا دنیا کا 5واں اور دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک ہے۔اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زنندگی گزار رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں 5 کروڑ افراد اپنی آمدنی کے حساب سے ضروریات زندگی سے محروم ہیں جن میں سے کئی افراد دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں غربت کی شرح 30.7 فیصد ہے۔آبادی کے تیزی سے بڑھنے اور نامناسب پانی اور ماحولیاتی صورتحال غذائی قلت کے حوالے سے تشویش آئندہ 2 سے 3 دہائی میں مزید بڑھے گی۔اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ تخمینے کے مطابق غذائی قلت اور اس سے ہونے والے اثرات پر ہر سال ملک کی جی ڈی پی کا 3 فیصد (7.6 ارب ڈالر) خرچ ہوتا ہے۔1497 ڈالر فی فرد آمدنی کے ساتھ پاکستان اب بھی نامناسب نشونما، آئرن، کیلشیئم وٹامن اے وغیرہ کی کمی اور صاف پانی کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔غذائی مصنوعات جیسے گوشت، مچھلی، دودھ، سبزی اور پھلوں کے فی فرد کھانے کے حساب سے پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے 6 سے 10 گنا پیچھے ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مل میں 5 سال سے کم عمر کے آدھے سے زائد بچوں کا قد چھوٹا ان کی عمر کے حساب سے چھوٹا ہے اور دس میں سے قد کے لحاظ سے وزن کی کمی کا شکار ہے۔خیال رہے کہ پاکستان گلوبل ہنگر انڈیکس پر 119 ممالک میں سے 106 نمبر پر آتا ہے جسے سنگین نوعیت کا غذائی قلت کا سامنا کرنے والا ملک بتایا جاتا ہے۔