اسلام آباد (اے این این ) جج ویڈیو سکینڈل میں سپریم کور ٹ نے تین درخواست گزاروں کی تجاویز قلمبند کر لی ہیں جبکہ 23جولائی تک اٹارنی جنرل سے رائے مانگ لی ہے ۔
منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی مبینہ متنازع ویڈیو لیک سے متعلق درخواست پر سماعت آج ہو رہی ہے اور وکیل کی جانب سے اس معاملے پر کمیشن کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ وکیل اشتیاق احمد مرزا کی جانب سے دائر ہونے والی چوہدری منیر صادق کے ذریعے دائر کی گئی
درخواست کی سماعت کی۔ عدالت عظمی میں معاملے کے حقائق کی مکمل تحقیقات کے لیے مزید 2 درخواستیں دائر کی گئیں ، ان نئی درخواستوں میں سے ایک ایڈووکیٹ سہیل اختر نے اپنے وکیل محمد اکرام چوہدری کے توسط سے دائر کی ہے جبکہ دوسری ایڈووکیٹ طارق اسد سے خود دائر کی ہے۔عدالت میں سماعت کے آغاز پر درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیے کہ ویڈیو لیکس اسکینڈل کے ذریعے عدلیہ پر سوالات اٹھائے گئے، یہ عدلیہ کی آزادی اور وقار کے حوالے سے ایک اہم اور حساس معاملہ ہے،
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور امیر جماعت اسلامی نے بھی عدلیہ سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ عدلیہ تحقیقات کرے، اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل(پی بی سی)نے بھی یہی مطالبہ دہرایا۔
وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے کہنے پر کوئی کام کریں گے تو کیا ہم آزاد ہوں گے، ازخود نوٹس کسی کے مطالبے پر لیں تو پھر وہ ازخود نوٹس نہیں ہوا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب سے بنی نوع انسان کی پیدائش ہوئی ہے، سچ کی تلاش جاری ہے، اگر یہ سچ تلاش کرنا ہے تو پھر جن ججوں نے مرکزی اپیل سنی ہے وہ کیا کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ پابند ہو جائے گی، پھر ہائی کورٹ کیسے کارروائی کرے گی۔
اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ کمیشن کی فائنڈنگ پر ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو اسی طرف لے کر آنا چاہ رہا تھا، کمشن کی فائنڈنگ پر کوئی عدالت نوٹس نہیں لے سکتی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے،
کمیشن کی رپورٹ ہائی کورٹ میں اپیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے، کیا آپ کو ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں ہے۔ منیر صادق نے کہا کہ کسی میں جرات نہیں ہونی چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرے، عدالت پاناما طرز کی جے آئی ٹی بنا سکتی ہے، جے آئی ٹی عدالت نے اپنی معاونت کے لئے بنائی تھی لیکن اس سے کم ازکم سچائی سامنے تو آگئی تھی۔
اس دوران درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دینا شروع کیے۔اکرام چوہدری نے دلائل دیے کہ مریم نواز کا بیان ہے کہ نواز شریف کے خلاف دباؤ پر فیصلہ کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں نواز شریف کا بیان اور جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی پڑھا۔
وکیل نے کہا کہ کسی ادارے پر سے اعتبار اٹھنا بذات خود بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، ان جج کے بیان کو انتہائی احتیاط سے دیکھنا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں، ہمیں بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل نے جج کو کرسی ماری یہ بھی غیرمعمولی معاملہ ہے لیکن ایک جج نے وکیل کو پیپرویٹ مارا تو کیا یہ غیر معمولی معاملہ نہیں؟۔اس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر عدلیہ سے متعلق بیانات جاری رہے تو پھر ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے میں دباؤ ہوگا۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا نقطہ ادارے کا معاملہ ہیں، جج کا معاملہ عدالت دیکھے گی، ہر روز معاملے سے متعلق معلومات آرہی ہیں، اس گرد کو اب بیٹھ جانا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جو دھول ابھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا بھی ہے، عدلیہ کو جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے ، پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ کا ہے ، دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا ہے، تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے، جج کے کنڈکٹ پر قانون موجود ہے، نواز شریف کے خلاف فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلی عدلیہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تجویز چاہتے ہیں جس سے جذبات کے بغیر فیصلہ کیا جاسکے، اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرے۔اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جو الزامات جج پر لگائے گئے ہیں، اس معاملے کو کون دیکھے گا، کیا وہ جج خود دیکھے گا جس پر الزامات ہیں۔سماعت کے دوران وکیل نے استدعا کی فوجداری اور سائبر قوانین کے تحت عدلیہ معاملے کی تحقیقات کروائے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملک میں جتنے مقدمات درج ہوتے ہیں، جتنی تفتیش ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ کے حکم سے ہوتی ہیں۔وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ بیانات اور پھر جوابی بیانات کی وجہ سے عدلیہ کی تضحیک ہورہی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے اس مقدمے کو سن رہے ہیں۔مریم نواز نے مزید ثبوتوں کا بھی دعوی کیاہے، جج نے کہا ناصر بٹ سے میری شناسائی ہے ، جج نے کہا دبائو ہوتا تو ایک کیس میں بری نہ کرتا، حسین نواز نے جج کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملاقات کی، فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے تحت تمام فریقین کے جواب لئے جائیں۔بعد ازاں دونوں درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں وہ کلبھوشن کیس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے دی ہیگ گئے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہا تینوں درخواست گزاروں کی تجاویز نوٹ کرلی ہیں، اٹارنی جنرل واپس آ کر اپنی تجاویز جمع کرا دیں گے۔چیف جسٹس نے درخواست گزاروں سے استفسار کیا کہ ، مزید کوئی تجویز تو نہیں، غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے، سب جج، پٹواری، سیاستدان، بیوروکریٹ، پولیس افسران ایسے ہیں، ایسے بیانات سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے، ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی۔سماعت کے موقع پر محمود خان اچکزئی ، طارق فضل چوہدری، جاوید ہاشمی اور رفیق رجوانہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے پیش نظر سپریم کورٹ کے احاطے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔سپریم کورٹ آفس نے کمرہ عدالت نمبر 1 میں محدودو نشستیں کو دیکھتے ہوئے کمرہ عدالت میں داخلے کے لیے خصوصی سیکیورٹی پاس کا فیصلہ کیا جو ایس پی(سیکیورٹی) سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اور صرف انہیں درخواست گزاروں یا سائلین کو اجازت دی گئی جن کے کیسز سماعت کے لیے مقرر ہیں، تاہم روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ایڈووکیٹ اور صحافیوں کو بغیر پاسز کے آنے کی اجازت دی گئی۔ سماعت کے دوران ایک درخواست سماجی کارکن اشتیاق مرزا نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمی کو عدلیہ کی آزادی، وقار، عزت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے چاہئیں۔درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری تھا کیونکہ یہ درخواست گزار کا حق ہے کہ اس کی اپنی زندگی، آزادی اور ملکیت سمیت تمام بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ ہو۔عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات نے یہ تاثر دیا کہ ملک میں عدلیہ آزادانہ کام نہیں کررہی اور اسے مخصوص حکم کے تحت بلیک میل اور دباؤ ڈالا جاتا ہے۔اسی طرح درخواست گزار سہیل اختر نے عدالت عظمی سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ محکمہ کو حکم دے کہ وہ سامنے آنے والی ویڈیو کلپس اور پرنٹ میڈیا میں شائع خبروں کی تحقیقات کا آغاز کریں اور اسے فارنزک معائنے کے لیے بین الاقوامی طرز کے ادارے کے پاس بھیجا جائے۔ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ عدالت وفاقی حکومت، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، نوائے وقت اور احتساب عدالت کے جج کو طلب کرے اور مریم نواز کی 6 جولائی کی پریس کانفرنس جس میں جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیوز جاری کی گئی تھیں سے متعلق ضروری مواد فراہم کریں۔یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والیجج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ(ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراونے خواب آتے۔ لہذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے۔انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعوی کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔تاہم ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ان پر لگنے والے الزامات پر جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔جج ارشد ملک نے مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ان کی مسلم لیگ(ن)کے ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ کے ساتھ پرانی شناسائی ہے اور دونوں بھائی مختلف اوقات میں مجھ سے مل بھی چکے ہیں۔اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانیکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔بیان حلفی میں دعوی کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفی دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔جج ارشد ملک نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفی دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تجا کہ فروری 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعینات ہونے کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے رابطہ کیا اور ملاقات کی۔