زندگی اور سکوت دو متضاد الفاظ ہیں ۔۔ جس میں ٹھہراو ہو وہ زندگی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔ زندگی دراصل نام ہی آزمائش کا ہے ۔۔ قدم قدم پر ، ایک کے بعد ایک ، نئی سے نئی ۔۔ دنیا کا کوئی انسان اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ، انسان چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں ایسا موڑ آتا ہے جب زندگی اسکو اپنے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔۔ بہت سے انسان اس مرحلے پر اپنی ہمت چھوڑ بیٹھتے ہیں ، زندگی کو لعن طعن کرتے ہیں ،قسمت کو کوستے ہیں اور بہت سے تو سیدھا سیدھا خدا سے گلہ شکوہ شروع کر دیتے ہیں سرکش ہو جاتے ہیں۔۔۔
ساری بات سمجھنے کی ہے ۔۔ ساری اہمیت اپروچ کی ہے ۔۔۔ مسئلہ بڑا نہیں ہوتا انسان کی اس مسئلے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کی اپروچ مختلف ہوتی ہے ۔۔ خدا نے سخت سے سخت آزمائش کیلیے انبیا کو چنا ۔۔ زیادہ تاریخ نہ کھنگھالیں صرف نبی آخری الزماں حضرت محمد ص کی حیات مبارکہ کو ہی دیکھ لیں یتیمی سے لیکر غریبی تک شعب ابی طالب میں معاشی و معاشرتی بائیکاٹ سے لیکر گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنے تک کونسی دنیاوی پریشانی تھی جو نبی کریم ص کی زندگی میں نہیں ملتی ۔۔۔ مگر فرق ہے اپروچ کا ۔۔۔
یہ دنیا اللہ کی دنیا ہے ۔۔ انسان مطلب "عبد” خدا کی بندگی کی خاطر اس دنیا میں بھیجا گیا ۔۔ لہذا ترتیب یہی ہے کہ انسان سب سے پہلا تعلق خدا سے قائم کرے اور دوسرا تعلق خلق سے ۔۔۔ جب انسان پہلا تعلق خلق سے قائم کرے گا ار خدا کو ثانوی حیثیت پر رکھے گا تو کوئی بھی تکلیف جھیلتے اسکی چیخیں نکلیں گی "ہائے ہائے ” کرے گا اور "میں ہی کیوں ” کی گردان کرے گا ۔۔ اسکو مسلسل ڈپریشن یا نفرت اور سرکشی جیسی بیماریاں لاحق ہو جائیں گی ۔۔
کسی بھی تکلیف یا پریشانی سے نبرد آزما ہونے کا سب سے آسان طریقہ مندرجہ ذیل ہے ۔۔
٭سب سے پہلے اپنا تعلق اللہ کے ساتھ استوار کیا جائے اس بات کو ذہن نشین کیا جائے کہ میں اس رب کے تابع ہوں جو زمین وآسمان کا خالق و مالک ہے ،اور جس رب کے میں تابع ہوں دنیا کے باقی تمام جن و انس بھی اسی کے محتاج ہیں ۔ لہذا کوئی انسان ، جن ، تعویز ، مجھے اس وقت تک نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک میرے رب کا حکم نہ ہو ۔۔ جب انسان کو اس بات پر یقین ہو جائے گا کہ اسکی جانب آنے والی ہر تکلیف دراصل اللہ کی ہی طرف سے ہے تو اسکا دماغ خودبخود اسکو تکلیف کے بجائے آزمائش کی اپروچ سے لے گا ۔۔ اور جب انسان یہ سمجھے گا کہ اسکا رب یعنی کائنات کا خالق و مالک اسکو آزما رہا ہے تو اسکو برداشت کرنے میں الجھن اور چڑچڑاہٹ کی بجائے سکون محسوس ہو گا ۔۔گویا
شکوہ تو اک چھیڑ ہے لیکن حقیقتا
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
٭ دوسرا اور اہم نقطہ ہے آخرت پر ایمان ، صرف منہ زبانی نہیں دل سے اس بات کو تسلیم کرنا کہ یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں ہونے والا ہر عمل بھی فنا ہونے کیلیے ہے ۔۔ اس اپروچ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو "میں ہی کیوں؟” کا جواب مل جاتا ہے ۔۔ اگر ہم اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھ لیں تو پھر ہم دنیا کے ان بیلنس سے اکتا جاتے ہیں ، دوسروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کہ دکھ محسوس کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک شخص حرام کماتا ہے دنیا میں خوشحال ہے ، بھر پور زندگی گزار رہا ، اولاد مال کی کوئی تنگی نہیں جبکہ ایک شخص حلال کمانے کی تگ و دو کرتا ہے اسکے باوجود تنگ دست ہے ، اولاد بھی حقوق پورے نہ ملنے کی وجہ سے نافرمان ہو چکی ہے اب اگر وہ شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور اس دنیا کے انعام کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے تو وہ خدا سے گلہ شکوہ کرے گا اور کہے گا میں جو تیرا حکم مانتا تھا اسکو رسوا کر رہا ہے جبکہ اپنے نافرمان کو نواز رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ بےچینی اسکو خدا سے غافل کر دے اور اسکے اندر نفرت ،حسد یا بغض جیسی اخلاقی برائیاں جنم لے لیں اور وہ اسکے نتئجے میں اپنی آخرت کھو بیٹھے یا پھر وہ ایمان قائم نہ رکھ پائے اور دنیا حاصل کرنے کیلیے پیروں فقیروں اور تعویز گنڈوں کے چکر میں الجھ جائے ۔۔آخرت پر پورے دل سے ایمان اپروچ کا بہت بڑا فرق ہے اور یہ انسان کو ہمیشہ کیلیے ایک قوت فراہم کرتا ہے
٭تیسرا اور آخری نقطہ ہے انسان کا انسان سے تعلق ۔۔ یہاں بھی اپروچ کا فرق انسان کو پرسکون یا بے چین بناتا ہے ۔۔ انسان کا رشتہ انسانیت سے ہے باقی تمام رشتے ناطے اسکے بعد آتے ہیں ۔۔ اگر ہم کسی انسان کی مدد کرتے ہیں اسلیے کہ ہمارا اس سے بہن بھائی ماں بیٹے وغیرہ وغیرہ جیسا رشتہ ہے تو اسکے نتیجے میں بھی "میں کیوں ” جیسا مسئلہ جنم لیتا ہے ۔۔ جیسے کہ آجکل دنیا میں گھر گھر میں ہوتا ہے اگر ایک بیٹا ماں باپ کی خدمت کرتا ہو اور دوسرا کہیں دور ہو تو اسکو "میں کیوں” والی بیماری ضرور لاحق ہوجاتی ہے اور اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت رشتے کو تولتا ہے انسانیت کو نہیں ۔۔۔کسی بھی انسان کی مدد کیلیے آپکی اپروچ کچھ یوں ہونی چاہیے
٭یہ میرے خدا کا بندہ ہے
٭یہ ایک مجبور انسان ہے
٭اس سے میرا فلاں رشتہ ہے
٭اس نے میرا ساتھ دیا تھا۔
اگر آپ یہ ترتیب الٹ دیں گے تو زیادہ دیر کسی کی مدد کو ثابت قدم نہیں رہ پائیں گے کیونکہ احسان اتارنے کی اپروچ آخر کب تک نبھا سکتے ہیں۔۔۔۔ اس اپروچ کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آپ ایموشنلی مضبوط اور بے نیاز ہو جائیں گے ۔۔ اگر آپ کسی کی خدمت رشتے کے حساب سے کریں گے صرف رشتے کے ، پھر آپ بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور توقع کریں گے ۔۔ جبکہ انسانیت اور خدا کے ناطے سے بڑی سے بڑی شے کو بخوشی قربان کر کہ بھی آپکو بدلے کی کوئی آس نہیں ہو گی
ایک کامیاب زندگی اور ایک پرسکون زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں پر عمل کرنے سے آپ ایک کامیاب انسان بننے سے رہ جائیں مگر سکون گارنٹی ہے ۔۔ یہ تجربہ ہے نہ ملے تو پیسے واپس!!
اس بلاگ کا ٹائتل تکالیف کا حل رکھا مگر دراصل تکالیف کا کوئی حل نہیں ہوتا کوئی سرا نہیں ہوتا اگر انسان اسے تکلیف سمجھ کہ گزارے جبکہ اگر اپنی ذرا سی اپروچ بدللے تو کوئی پریشانی کبھی پریشانی نہیں ہوتی ۔۔۔
وسلام