ایک شخص سمندر کے کنارے واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص نیچے جھکتا ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے
ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی ہیں
شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھا، اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
اسے اس شخص کی بیوقوفی پر ہنسی آگئی اور ہنستے ہوئے اسے کہا:
اس طرح کیا فرق پڑنا ہے، ہزاروں مچھلیاں ہیں کتنی بچا پاؤ گے ۔۔۔؟
یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا ، ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا۔ وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی، پھر اس نے سکون سے دوسرے شخص کو کہا: ’’اسے فرق پڑا‘‘
یہ کہانی ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات تبدیل نہ ہوں، مگر کسی ایک کے لیے وہ فائدے مند ثابت ہو سکتی ہے۔
لہذا دل بڑا رکھیں اور اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق اچھائی کرتے رہیں، اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کی اس کوشش سے معاشرے میں کتنی تبدیلی آئی؟
بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے حصے کی اچھائی کا حق کتنے حد تک ادا کیا؟
مخلوق خدا کی مدد کیجیے۔۔۔
اگر نہیں کر سکتے تو جو کر رہے ہیں ان پر تنقید نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کیجیے۔۔۔
جو شخص مدد مانگ رہا ہے چاہے جھوٹی ہی سہی اس پر شک نہ کیجیے بلکے یہ سوچ کر مدد کر دیں کروڑوں لوگوں میں اللّه نے آپ کو چنا ہے مدد کے لئے جو۔ اس کے دل میں ڈال کر بھیجھا ہے، ورنہ وہ یہ کام کسی اور سے بھی لے سکتا تھا سوچیے گا ضرور
یقین کیجیے سکون ملے گا۔۔۔
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے