لاہور (لاہورنامہ) پاکستان آم کے زیرکاشت رقبے کے لحاظ سے دنیا میں 7 ویں نمبر پر ہے۔ متحدہ عرب امارات، یورپ،جاپان اور امریکہ آموں کی برآمد کے لئے اچھی منڈیاں ثابت ہو سکتے ہیں .
مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ آم کے باغبان پھل کی برداشت اور پیکنگ کے دوران بین الاقوامی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھیں .وزیر زراعت پنجاب سید حسین جہانیاں گردیزی نے آم کی برآمدات بڑھانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے منعقدہ آن لائن ویبی نار سیمینار میں کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں آم کی کاشت ایک لاکھ 72 ہزار 308 ایکٹررقبہ پر ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں آم کا زیرکاشت رقبہ ایک لاکھ 11ہزار 432 ایکٹر ہے۔ پاکستان میں آم کی سالانہ پیداوار 20لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے صرف صوبہ پنجاب میں 13لاکھ میٹرک ٹن سے زائد پیداوار حاصل ہوتی ہے اور اس میں ابھی اضافہ کی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والا آم پوری دنیا میں اپنی خوشبو اور میٹھے ذائقے کے اعتبار سے مشہور ہے۔ اسی لئے موجودہ حکومت آم کی برآمدات بڑھانے اور پوسٹ ہارویسٹ نقصانات سے بچاؤ کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ سیمینار میں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ فخر امام نے خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پرصوبائی وزیر زراعت نے کہا کہ حکومت پنجاب آم کی مختلف اقسام کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کی برآمدات کو بڑھانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔اس مقصد کے لئے آم کے باغبانوں اور اسٹیک ہولڈرز کیلئے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ،تکینکی معاونت اور آگاہی کو فروغ دینے کیلئے مختلف منصوبہ جات پر عملدرآمد جاری ہے .
جس کے تحت بین الاقوامی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آموں کی برآمدات بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔پاکستان میں آم کی چار سو اقسام کاشت کی جاتی ہیں تاہم اُن میں سے25 اقسام کو برآمد کیا جاتا ہے جس سے سالانہ1 ارب ڈالر زرِ مبادلہ کا حصول ہوتا ہے۔
یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ امسال پاکستان1 لاکھ ٹن سے زائد آموں کی برآمد کرے گا جس سے نہ صرف آم کے باغبانوں، ایکسپورٹرز کا فائدہ ہو گا بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔
اس ویبی نار سیمینار کا اہتمام مینگو ریسرچ انسٹیٹورٹ ملتان اور ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان نے کیا جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو باہمی دلچسپی کے اُمور اور آموں کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔سیمینار میں وائس چانسلر ایم این ایس زرعی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر آصف علی،ڈائریکٹر جنرل اصلاح آبپاشی ملک محمد اکرم سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی.