اسلام آباد (لاہورنامہ)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کو حل کئے بغیر جنوبی ایشیا کے لوگوں کو دائمی عدم استحکام سے نجات نہیں مل سکتی اور امن وخوش حالی ایک بڑا چیلنج رہے گا .
بھارت کے بارے میں بات کئے بغیر خارجہ پالیسی مسائل کے بارے میں بات مکمل نہیں ہوتی، امن اور جیواکنامک کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کی کوششیں یک طرفہ نہیں ہوسکتیں، بھارتی مظالم اور جبر واستبداد اتنا کْھلا اور بہیمانہ وقابل مذمت ہے ، جسے سیکولرازم اور جمہوریت کے خوش نما نعروں یا پردوں میں چھپایا نہیں جاسکتا.
افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کی تشکیل کے حامی ہیں جس میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت خواتین کے حقوق کا احترام ہو، دنیا کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،ہمارے چین کے ساتھ تعلقات تنوع اور مزید استحکام کی جانب گامزن ہیں،امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے ہم امریکہ کے ساتھ سودے بازی والے تعلقات نہیں چاہتے،امریکہ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کارانہ تعلقات میں اضافہ اور خطے کو جوڑنے سے متعلق تعاون ہمارے باہمی مفاد میں کام آسکتا ہے.روس کے ساتھ سلامتی اور معاشی شعبوں میں تعلقات میں ایک نئی زندگی پیدا ہونے سے نئے دروازے کْھلے ہیں۔
وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے تبدیل ہوتے جیوپولیٹیکل منظر نامے میں مستقبل کی خارجہ پالیسی کے مسائل کے عنوان پر ”مارگلہ ڈائیلاگ فورم 2021” سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں اسلام آباد ‘پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ’ (اِپری) کو ‘مارگلہ ڈائیلاگ’ کی اس نشست کے اہتمام پر مبارک پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ اس نشست میں ممتاز شخصیات کی شرکت سے یقیناً امن، سلامتی اور خوش حالی کی راہ کی نشاندہی کرنے میں ہمیں راہنمائی میسرآئے گی۔
انہوں نے کہاکہ میں آج یہاں جیوپولیٹیکل منظر نامے کی تبدیلی کے ساتھ خارجہ پالیسی کے مستقبل کے مسائل پر بات کرنے کے لئے یہاں موجود ہوں۔ انہوںنے کہاکہ یقینا ہم بے یقینی کے ادوار میں جی رہے ہیں،عالمی نظام شدید دبائو، بے ترتیبی اور تذبذب میں مبتلا محسوس ہوتا ہے، عالمی طاقتوں کے درمیان حالیہ سٹرٹیجک مقابلے نے عالمی امن کی نزاکتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور سفارتکاری کی ایسی سمت پر ڈال دیا ہے جس کے بارے میں حتمی طورپر کچھ کہنا کافی مشکل ہوگیا ہے،اس دور میں خارجہ پالیسی اور جیوپالیٹیکس زیادہ تر جیواکنامکس سے جْڑ گئی ہیں.
انہوں نے کہاکہ جیواکنامکس پر ہماری توجہ کے یقیناً ثمرات حاصل ہورہے ہیں مثال کے طور پر مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ نومبر2021 تک کورونا کے باوجود ہماری برطانیہ کے ساتھ برآمدات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دسمبر 2019 میں اسلام آباد میں افریقہ کے ساتھ روابط (انگیج افریقہ) کانفرنس کے بعد سے افریقہ کے ساتھ ہماری تجارت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوم برگ کے مطابق صرف اس سال کے دوران امریکہ، سنگا پور اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے پاکستان میں نئے کاروبار کیلئے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، یہ ایک مناسب آغاز ہے اور مستقبل قریب میں ٹیکنالوجی کی صنعت میں بڑا اضافہ متوقع ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایف ایم آنرز لسٹ جس کا آغاز میں نے 2019 میں کیاتھا، درحقیقت خاص طور پر بیرون ملک ہمارے پاکستانیوں کی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے کاوشوں کے اعتراف کے لئے شروع کی گئی۔ انہوںنے کہاکہ بلاشبہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ دفتر خارجہ نے بڑے واضح انداز میں ان ڈیجیٹل تقاضوں کو ترجیح دی ہے، مثال کے طورپر پاکستان نے سعودی عرب کی قیادت میں ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن ڈی سی او میں بانی رْکن کے طورپر شمولیت اختیار کی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان سے چار سرفہرست پروفیشنلز نے اس تنظیم میں قائدانہ مناصب پر شمولیت اختیار کی ہے جس کا سیکریٹریٹ ریاض میں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے چین کے ساتھ تعلقات تنوع اور مزید استحکام کی جانب گامزن ہیں۔ انہوںنے کہاکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو (جس کا چین پاکستان اقتصادی راہداری، ایک ہراول منصوبہ ہے) کے تحت، معاشی جغرافیے اور ایشیا، یورپ اور افریقہ کے تین متصل براعظموں کے جْڑنے سے تمام دنیا کے شہریوں کے لئے خوش حالی کے نئے در کھلیں گے۔