رانا شمیم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم پر فردِ جرم عائد کر دی

اسلام آباد (لاہورنامہ)ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر توہینِ عدالت کیس میں فردِ جرم عائد کر تے صحافیوں کے خلاف کارروائی موخر کردی .

جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاہے کہ عدالت لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، عدالتی معاونین ناصر زیدی، فیصل صدیقی، ریما عمر، دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر عدالت میں پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ سے جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے استدعا کی کہ صحافیوں کی حد تک فردِ جرم کی کارروائی موخر کی جائے، ایسا کرنا اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کی رائے کے مطابق ہے، آپ نے جو محتاط رویے کی بات کی تھی اس کو بھی مستقبل میں دیکھا جائے گا۔

پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ بھی روسٹرم پر آئے جنہوں نے کہا کہ ہم زیرِسماعت کیسز پر رپورٹنگ اور تبصرے سے متعلق میٹنگز کر رہے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کو احساس تک نہیں کہ زیرِ سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے، جولائی 2018ء سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق جسٹس ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے۔

افضل بٹ نے کہا کہ یہ بات حلفاً کہنے کو تیار ہوں کہ صحافی اس کورٹ پر مکمل یقین رکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عدالت آخری امید ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں، ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے۔سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا کہ مجھے بھی کچھ کہنے کی اجازت دی جائے۔عدالت نے کہا کہ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کا ثانوی کردار ہے، کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دیگی اور اس کو آپ چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی،

انصار عباسی کو میں 20 سال سے جانتا ہوں، ان کی انٹیگریٹی پر کوئی شک نہیں۔ناصر زیدی نے کہا کہ ہم نے میٹنگز کی ہیں اور کورٹ رپورٹنگ سے متعلق کوڈ آف کنڈکٹ بنا رہے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لوگوں کے ہاتھوں میں بھی کھیلا جاتا رہا ہے، میرا کنسرن صرف اپنی عدالت سے ہے، بیانِ حلفی کا لبِ لباب یہ ہے کہ یہ کورٹ کمپرومائزڈ تھی، اتنا ہائی پروفائل کیس سماعت کیلئے مقرر تھا، یہ سمجھا جائے گا کہ اخبار کو اس سے متعلق علم تھا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ آج پہلی بار میڈیا کی طرف سے اظہارِ ندامت ہوا ہے، رانا شمیم کے ساتھ میڈیا پرسنز کو بھی فیئر ٹرائل کا مکمل حق ہے، میری استدعا ہے کہ توہینِ عدالت کی کارروائی ختم نہیں بھی کرنی تو میڈیا کی حد تک موخر کی جائے، میری مودبانہ درخواست ہو گی کہ رانا شمیم پر فردِ جرم عائد اور باقیوں کی موخر کی جائے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ زیدی صاحب نے نہیں بتایا کہ کوڑا لگتا کیسے ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ وہ میں اپنے والد سے پوچھ کر بتائوں گا، میری تو والدہ نے بھی جیل کاٹی تھی۔اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ گئے جنہوں نے کہا کہ صحافتی تنظیم نے بڑی اچھی بات کی ہے، یہی بات میڈیا پرسنز بھی کر دیں، ان کی طرف سے بھی ایسا جملہ آنا چاہیے کہ وہ آئندہ مزید محتاط رہیں گے، اس کیس کی جیسے میڈیا رپورٹنگ ہو رہی ہے وہ بھی سب جوڈس رول کے خلاف ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر کہیں پر یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس کے نتائج خطرناک ہیں، یہاں معاملہ مختلف ہے۔