عمران خان

پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں، عمران خان

اسلام آباد(لاہورنامہ)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کیلئے ناگزیر ہے، افغانستان سے تین گروپ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے.

پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے ،کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے، خطے میں امن کے لیے بھارت سے بات ہوسکتی ہے ،پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا .

فرانس پاکستان کیلئے بہت اہم ملک ہے، فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا،ہم امن میں امریکا کے شرکت دار ہیں تنازعات میں نہیں، پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں۔

منگل کو فرانسیسی اخبار لی فگارو کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہندوستان میں جوکچھ ہورہاہے اس پر وہ اپنے تمام ہندوستانی دوستوں کیلئے پریشان ہیں ، ایک تعلیم یافتہ ہندوستانی کیلئے اس وقت ہندوستان میں پلنابڑھناباعث تشویش ہوگا۔ افغانستان سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ پہلے پاکستان افغانستان کے اردگردموجود تمام علاقائی ممالک کوساتھ لیکرچلنا چاہتاہے.

ہم ان کے ساتھ مل کرمشترکہ قدم اٹھاناچاہتے ہیں،اگرپاکستان تنہاکوئی قدم اٹھاتاہے تو اس سے پاکستان پربہت زیادہ بین الاقوامی دبائوآجائیگا، پاکستان اس وقت معاشی طور پر اپنے پیروں پرکھڑاہونے کی کوشش کررہاہے، جب ہماری حکومت آئی توملک دیوالیہ تھا، ہمارے پاس واجبات اداکرنے کیلئے پیسے نہیں تھے، ہماری توجہ کامرکز اس وقت معیشت ہے اورہم اپنی معیشت کواسی صورت میں اوپرلے جاسکتے ہیں جب دنیا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہوں۔

وزیراعظم نے کہاکہ آخری چیز جوہم نہیں چاہیں گے وہ عالمی تنہائی ہے،یعنی ہم واحدملک ہوں جوانہیں(طالبان حکومت) کوتسلیم کرے تاہم یہ کہتے ہوئے میرایقین ہے کہ آگے بڑھنے کاواحدراستہ یہ ہے کہ اگرتقریباًچارکروڑ افغانوں کی فلاح وبہبودکے خواہاں ہیں توافغان حکومت کوجلدیابدیرتسلیم کرنا ہے کیونکہ اس وقت کوئی دوسرامتبادل دستیاب نہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ جب پچھلی بارطالبان کی حکومت تھی تو ان کاشمالی اتحاد کے ساتھ تنازعہ چل رہاتھا۔افغانستان میں اب کوئی تصادم نہیں جوکہ 40 سال بعدپہلاموقع ہے، سوائے چندچھوٹی موٹی دہشت گردتنظمیوں کے ملک تنازعات سے پاک ہے،افغانستان میں جتنازیادہ استحکام ہوگا، اتناہی ان بین الاقوامی دہشت گردوں کے پنپنے کاامکان کم ہوگا لہذامیں محسوس کرتا ہوں کہ آگے بڑھنے کاواحدراستہ طالبان حکومت کوتسلیم کرناہے، پاکستان اکیلاایسانہیں کرسکتا، ہم تمام علاقائی ممالک سے مشاورت کررہے ہیں .

لیکن افغانستان کے عوام کی فلاح کیلئے جلد یابدیرانہیں افغانستان کوتسلیم کرنا پڑے ہوگا۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس بات پربین الاقوامی اتفاق رائے ہے افغانستان میں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے، دوسراانسانی حقوق خاص طورپرخواتین کے حقوق کاتحفظ ہونا چاہیے ، طالبان کی حکومت نے دونوں کاوعدہ کیاہے، انہوں نے انسانی حقوق اورانہوں نے جامع حکومت کی بات کی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ طالبان ایساکیا کرے جس سے دنیامطمئن ہوں کہ طالبان نے شرائط پوری کردی ہے، اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وہ اب تک دونوں شرائط پرراضی ہوچکے ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ امیرمتقی کے دورہ میں کوئی ٹھوس یقین دہانی تو نہیں کرائی مگرانہوں نے اس اصول پراتفاق کیا کہ وہ اس بابت آگے کیسے بڑھیں گے۔ اگرکوئی افغانوں کے کردارسے واقف ہے تو اسے یہ ادراک ہونا چاہیے کہ وہ بہت فاخرلوگ ہیں اورآپ انہیں مجبورنہیں کرسکتے، وہ بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں، 2001 میں پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھاجنہوں نے افغانستان کوتسلیم کررکھاتھا،اس کے باوجود جب پاکستان نے طالبان سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکاکے حوالے کردے تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔

اس لئے ایک حد تک بیرونی دبائو کسی حکومت پر اثر اندازہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسی حکومت پر جو طالبان کی طرح بہت زیادہ آزادی پسند ہے۔ صرف متنبہ کرنے کے لئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس عمل کے لئے آپ انہیں مجبور کر سکتے ہیں تو ایسا نہیں ہونے والا ہے اور ہمیں توقع بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خواتین کے حقوق کے متعلق افغانستان کے لوگ کیاسوچتے ہیں اور مغرب میں خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں ان دونوں کے درمیان ایک بڑی خلا ہے۔

خواتین کے لئے مغربی طرزکے حقوق کی اگرکوئی توقع کررہاہوں توافغانستان میں ایسا نہیں ہوگا تاہم وہ اس بات سے متفق ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کم از کم یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر جب وہ یہاں آئے تو انہوں نے اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دو خدشات موجود ہیں پہلا تو پناہ گزین ہیں۔