چینی وزیر خارجہ وانگ ای

چین کا بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی اتحاد پر زور

بیجنگ (لاہورنامہ)چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا ہے کہ کہ رواں سال متعدد چیلنجز درپیش ہیں، بین الاقوامی صورتحال مزید پیچیدہ اور ہنگامہ خیز ہو چکی ہے۔

اس نازک موڑ پر تمام ممالک کی جانب سے تقسیم کے بجائے اتحاد، تصادم کے بجائے مذاکرات کی ضرورت ہے، چین ہنگامہ خیز اور بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیشہ استحکام اور مثبت قوت کا حامی رہا ہے، چند بڑی طاقتیں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے دوبارہ سرد جنگ کی ذہنیت پر عمل پیرا ہیں اور محاز آرائی کو ہوا دے رہی ہیں، جس نے انتشار اور تقسیم کو مزید بڑھاوا دیا ہے، علاقائی تصادم کو ہوا دینے اور صف آرائی کے لیے گروہ بندی جیسے تمام اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہیں.

امریکہ نے غیر ذمہ دارانہ طور پر افغانستان سے انخلاء کیا ہے، چین افغان عوام کی ضروریات کے مطابق مزید امداد جاری رکھے گا، حالیہ برسوں میں چین بھارت تعلقات کو کچھ دھچکوں کا سامنا رہا ہے ،یہ صورتحال چین اور بھارت دونوں ممالک کے عوام کے بنیادی مفادات سے بالکل متصادم ہے ۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے پیر کے روزتیرہویں قومی عوامی کانگریس کے پانچویں اجلاس کی میڈیا بریفنگ میں کہا کہ رواں سال متعدد چیلنجز درپیش ہیں،نوول کورونا وائرس کی وبا کو تاحال مکمل شکست نہیں دی جا سکی ہے ، یوکرین کا بحران بھی سامنے آ چکا ہے۔ یوں غیر یقینی بین الاقوامی صورتحال مزید پیچیدہ اور ہنگامہ خیز ہو چکی ہے۔

اس نازک موڑ پر تمام ممالک کی جانب سے تقسیم کے بجائے اتحاد، تصادم کے بجائے مذاکرات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے چین کثیرالجہتی کے علم کو بلند رکھے گا، تمام امن پسند اور ترقی کے خواہاں ممالک کے ساتھ یکجہتی اور تعاون کو مضبوط بنائے گا، چیلنجوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے اور ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کے لیے کام جاری رکھے گا اور ایک روشن مستقبل کے قیام کے لیےکوشش کرے گا ۔

وانگ ای نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیابی نہ صرف کھیلوں کی کامیابی ہے بلکہ اتحاد کی فتح بھی ہے۔
وانگ ای نے یوکرین میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے چین کی جانب سے چھ نکاتی تجاویز پیش کیں۔جن میں انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کی پاسداری اور سیاست سے گریز ، یوکرین میں بے گھر ہونے والے افراد کی آبادکاری اور امداد ، مؤثر طور پر شہریوں کا تحفظ ، انسان دوست امدادی سرگرمیوں کا ہموار اور محفوظ انعقاد ، یوکرین میں غیر ملکیوں کے تحفظ کی ضمانت اور محفوظ انخلاء اور یوکرین کے لیے انسانی امداد میں ہم آہنگی کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت شامل ہیں ۔

وانگ ای نے اعلان کیا کہ چین انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا خواہاں ہے۔ چین کی ریڈ کراس سوسائٹی جلد از جلد یوکرین کو ہنگامی انسانی امداد کی ایک کھیپ فراہم کرے گی۔

چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے واضح کیا کہ چین ہنگامہ خیز اور بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیشہ استحکام اور مثبت قوت کا حامی رہا ہے اور تاریخ میں ہمیشہ ترقی کی درست سمت میں کھڑا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا انتہائی غیر مستحکم ہے، چند بڑی طاقتیں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے دوبارہ سرد جنگ کی ذہنیت پر عمل پیرا ہیں اور محاز آرائی کو ہوا دے رہی ہیں، جس نے انتشار اور تقسیم کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔

چین کا پختہ اعتماد ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنےکا صحیح راستہ کثیرالجہتی کے جھنڈے تلے یکجہتی اور تعاون کو مضبوط بنانا ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔

وانگ ای نے کہا کہ چین اور روس کے تعلقات میں خود مختاری اور خود انحصاری کی اہمیت ہے، یہ تعلقات غیر صف بندی، عدم تصادم اور تیسرے فریق کو نشانہ نہ بنانے پر مبنی ہیں ۔یہ تعلقات تیسرے فریق کی مداخلت اور اشتعال انگیزی سے بھی پاک ہیں۔وانگ ای نے کہا کہ چین اور روس ایک دوسرے کے اہم ترین قریبی ہمسایہ اور اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ چین اور روس کے تعلقات دنیا کے اہم ترین باہمی تعلقات میں سے ایک ہیں۔چین روس تعاون نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے بلکہ عالمی امن، استحکام اور ترقی میں بھی مددگار ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے این پی سی کی نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ رواں سال شنگھائی اعلامیہ کی 50ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو چین اور امریکہ نے اختلافات کے بجائے تعاون کی بنیاد پر عالمی امن اور خوشحالی کو فروغ دیا ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی ثمرات لائے گئے ہیں۔مستقبل کے تناظر میں دونوں فریقوں کو باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور سود مند تعاون کے "تین اصولوں” کے عین مطابق چین امریکہ دوطرفہ پالیسی اور باہمی تعلقات کو درست راہ پر واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
چین-یورپ تعلقات کے حوالے سے وانگ ای نے کہا کہ چین اور یورپ عالمی امن کے تحفظ کی دو بڑی طاقتیں ہیں ۔ چین-یورپ تعلقات نہ تو کسی تیسرے فریق کے خلاف ہیں، نہ ہی کسی پر منحصر ہیں اور نہ ہی کسی کے کنٹرول میں ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان باہمی احترام، باہمی سود مند تعاون کی بنیاد پر بات چیت اور تعاون ہنگامہ خیز عالمی صورتحال سے نمٹتے ہوئے مزید استحکام کا سبب ہو گا۔
"بیلٹ اینڈ روڈ ” سے متعلق وانگ ای نے بتایا کہ کہ 2021 میں مزید 10 ممالک چین کے ساتھ "بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون میں شامل ہو چکے ہیں ،یوں "بی آر آئی فیملی” کے ارکان کی تعداد 180 تک پہنچ چکی ہے۔ وانگ ای نے نشاندہی کی کہ مستقبل میں، چین بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر "بیلٹ اینڈ روڈ” کی اعلیٰ معیار کی مشترکہ تعمیر کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی "انڈو پیسیفک حکمت عملی” علاقائی ممالک کے امن، ترقی، مفاد اور باہمی سودمند تعاون کے مشترکہ وژن سے متصادم ہے، لہذا اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وانگ ای نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم علاقائی حقائق اور تمام فریقوں کے تقاضوں کی روشنی میں ہر قسم کی تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں اور علاقائی تصادم کو ہوا دینے اور صف آرائی کے لیے گروہ بندی جیسے تمام اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے این پی سی کی نیوز بریفنگ میں کہا کہ چینی صدر شی جن پھنگ کا پیش کردہ عالمی ترقیاتی انیشیٹو مختلف فریقوں کی ضروریات کے عین مطابق ہے اور اسے اقوام متحدہ سمیت تقریباً 100 ممالک کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ چین دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ ہے تاکہ کوئی بھی ملک ترقی کے سفر میں پیچھے نہ رہ جائے ، کوئی بھی تقاضہ نظر انداز نہ ہو سکے اور یکساں عالمی ترقیاتی برادری کی مشترکہ تعمیر کی جائے ۔
اس موقع پر وانگ ای نے مزید کہا کہ 2021 میں، امریکہ نے نام نہاد "ڈیموکریسی سمٹ” کا انعقاد کیا جس میں امریکی سوچ کے مطابق دنیا کے تقریباً نصف ممالک کو شریک نہ کرتے ہوئے ایک تقسیم کا ماحول پیدا کیا گیا ۔ امریکہ کا یہ عمل بذات خود جمہوریت کی روح کی پامالی ہے اور اسی باعث یہ سمٹ غیر مقبول رہی ہے ۔وانگ ای نے کہا کہ خود کو اعلیٰ ترین سمجھنا ہر گز جمہوریت نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ امر ہے۔
چین۔ بھارت تعلقات کے حوالے سے وانگ ای نےکہا کہ حالیہ برسوں میں چین بھارت تعلقات کو کچھ دھچکوں کا سامنا رہا ہے ،یہ صورتحال چین اور بھارت دونوں ممالک کے عوام کے بنیادی مفادات سے بالکل متصادم ہے۔ امید ہے کہ بھارت ، چین کے ساتھ مل کر ” ایک دوسرے کے لیے خطرات کے بجائے باہمی ترقیاتی مواقع ” پرمبنی اسٹریٹجک اتفاق رائے کی روشنی میں باہمی اعتماد سازی کے فروغ اور غلط فہمیوں سے گریز سے شراکت دار بنے گا۔ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے حریف نہیں ہونا چاہیے ، تاکہ دوطرفہ تعلقات کے تسلسل کو صحیح سمت میں یقینی بنایا جا سکے۔
وانگ ای نے امور افغانستان کے حوالے سے کہا کہ افغانستان کو درپیش مشکلات پر قابو پانے کے لیے اسے انسان دوست امداد کی فراہمی میں تیزی لانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے غیر ذمہ دارانہ طور پر افغانستان سے انخلاء کیا ہے، جس سے افغان عوام کے لیے ایک سنگین انسانی بحران اور علاقائی استحکام کے لیے ایک مشکل سیکورٹی چیلنج سامنے آیا ہے۔ وانگ ای نے کہا کہ چین نے بر وقت افغانستان کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے، اور افغان عوام کی ضروریات کے مطابق مزید امداد جاری رکھے گا ۔