بیجنگ (لاہورنامہ) یہ پاکستان کے بابائے صحافت ،نامور شاعر ظفر علی خاں کا ایک مشہور شعر ہے ،جو مذکورہ چینی کہاوت سے ملتا جلتا ہے۔ ہم کو بتا نا چاہتے ہیں کہ خود مختار ترقی حاصل کرنے کے لیے آپ کو صرف اور صرف اپنے آپ پر انحصار کرنا ہوگا۔ غیر متوقع بحران کے مقابلے کی تیاری اور ممکنہ خطرات سے چوکنا رہنے کے ایک خاص احساس کے ساتھ ہی ہم سخت مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں۔
چین ایک بڑی آبادی والا ملک ہے۔اس لئے خوراک کی سیکیورٹی چین کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ حالیہ دنوں بیجنگ میں منعقدہ چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی قومی کمیٹی کے سالانہ اجلاس میں چینی رہنما شی جن پھنگ نے ایک بار پھر شرکا ئے اجلاس کے ساتھ اپنی بات چیت میں غذائی تحفظ کی اہمیت پر زور دیا ۔ اگر ایک ملک کی سلامتی دوسروں پر منحصر ہے، اس کی خوراک دوسروں پر منحصر ہے، اور اس کی ٹیکنالوجی دوسروں پر منحصر ہے، تو وہ ملک حقیقی آزادی اور خود مختاری کیسے حاصل کر سکتا ہے۔
چینی صدر نے زور دے کر کہا، "چین کو کون کھلائے گا؟ چین کو خود انحصاری پر بھروسہ کرنے اور کھانے پینے کے سلسلے میں خود کو سہارا دینے کی ضرورت ہے!” "خوراک کی حفاظت ‘ملک کا سب سے بڑا’کام ہے۔ کھانے سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ "خوراک کی حفاظت ایک اسٹریٹجک مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں سماجی استحکام اور لوگوں کے سکون کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں خوراک ہے اور ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
پاکستان بھی زراعت پر مبنی ملک ہے اور ایک بڑی آبادی والا ملک بھی ۔اس لئے پاکستان اور چین کو یکساں چیلنجز کا سامنا ہے ۔یہی وجہ سے دونوں ممالک فوڈ سیکیورٹی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔پاکستان نے خاص طور پر منسٹری آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ قائم کی ہے اور قومی غذائی تحفظ کی حکمت عملیوں کا ایک سلسلہ مرتب کیا ہے۔ وزارت کے اہم فرائض میں قومی خوراک کی پالیسی سازی، اقتصادی رابطہ کاری،منصوبہ بندی اور نفاذ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت نے اناج کی پائیدار پیداوار کے نظام کی ترقی کے لئے اوسطاً چار فیصد کی سالانہ شرح نمو کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
قابل کاشت زمین کے کافی رقبے کی ضمانت دینے کے علاوہ، بیجوں کی سیکیورٹی، زراعت اور خوراک کی حفاظت اور خود انحصاری کے نمایاں پہلو ہیں۔ بیج زراعت کی روح اور کلید ہیں۔ صرف اس صورت میں جب بیجوں کی خود انحصاری حاصل ہو جائے تو بنیادی طور پر قومی غذائی تحفظ کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس وقت، عالمی بیجوں کی منڈی پر جرمنی کی کمپنی Bayer اور امریکہ کی کمپنی Corteva( Dow DuPont) کی اجارہ داری ہے۔ دونوں کا مارکیٹ شیئر 50% سے زیادہ ہے اور یہ متعلقہ بیشتر پیٹنٹ ٹیکنالوجیز کے مالک ہیں ۔ اس لیے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اناج کے حوالے سے دنیا کے بہت سے ممالک کا تقدیر اپنے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے چینی رہنما نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی خود انحصاری اور ترقی ضروری ہے کہ عمدہ بیجوں کی پرورش کی جائے، بہتر بیجوں پر تکنیکی تحقیق کو مضبوط کیا جائے ، اور چینی بیجوں پر انحصار کر کے چین کے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
خوش کن بات یہ ہے کہ اس وقت چین کے خود تیار کردہ بیجوں سے پیدا ہونے والے اناج کا رقبہ چین میں اہم فصلوں کے کل رقبے کا 95 فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے ، اور چاول اور گندم کی خود کفالت کی شرح 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم، سبزیوں کے بیجوں کے سلسلے میں، چین اب بھی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اور چین کی بیجوں کی صنعت کی ترقی کے لیے اب بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔اور اس سلسلےمیں چین اور پاکستان کو زیادہ وسیع پیمانے پر تعاون کرنا چاہیے اور چین پاک ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے فروغ کو زیادہ تقویت فراہم کرنی چاہیے۔