منیر اکرم

سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں مقبوضہ کشمیر کو بہت کم توجہ دی جاتی ہے ،منیر اکرم

نیویارک (لاہورنامہ)پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خواتین کے حقوق پر بحث کے دوران بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموں کشمیر میں خواتین کی حالت زار پر روشنی ڈالی اور عالمی ادارے پر زور دیا کہ وہ ان کی مایوس کن صورتحال کو نظر انداز نہ کرے۔

اقوام متھدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں زیادتیوں،ظلم اور جبر کا شکار خواتین، یوکرین میں جاری تنازع سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار اور جنگ کے بعد کے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کیے گئے حوالہ جات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور 15 رکنی باڈی کے مباحثوں کے دوران مقبوضہ کشمیر کو بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

پاکستانی مندوب نے تنازعات کی متعدد صورتوں میں جہاں خواتین اور لڑکیوں کو خطرہ لاحق ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی جیسے چیلنجز کو جامع، موثر اور غیر امتیازی انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس حوالے سے سفیر اکرم نے کہا کہ کونسل کے مباحثوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری تشدد کم نظر آتا ہے جہاں ہزاروں خواتین کے خلاف جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے والے واقعات جیسے عصمت دری اور جنسی تشدد کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی ایسی حالت زار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے،انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے تمام عمل میں دوہرے معیار پر قابو پانا چاہیے۔ اپنی تقریر کے آغاز میں سفیر اکرم نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے اجلاس کو بتایا کہ پاکستانی خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کرتی رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین نے وزیر اعظم، قومی اسمبلی کے سپیکر، قائد حزب اختلاف، کابینہ کے وزرا ، ججز، آرمی آفیسرز، فائٹر پائلٹ کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں 20 فیصد سفارت کار خواتین نمایاں طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں جسے پاکستان نے تعینات کیا ہے۔پاکستانی سفیر نے ڈبلیو پی ایس (خواتین، امن اور سلامتی) کے ایجنڈے کے چار ستونوں کو نافذ کرنے اور تنازعات کے بعد کی ترتیبات میں ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت سے بھی اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات سے متاثرہ ممالک کو ریاستی خود مختاری اور قومی ملکیت کے مکمل احترام میں ثقافتی طور پر حساس فریم ورک کے اندر تکنیکی مدد کی ضرورت ہے۔