جنگ

جنگ سب سے بڑی صنعت ہے اور اسکا رہنما واشنگٹن ہے ، میڈ یا رپورٹ

بیجنگ (لاہورنامہ) چینی میڈ یا نے ایک تبصرہ میں کہا ہے کہ جنگ سب سے بڑی صنعت ہے، اور اس صنعت کا رہنما اور بہترین مینجر یقیناً واشنگٹن ہے۔ جنگوں کے لیے اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے اور تعمیر نو کے لیے ڈالرز درکار ہوتے ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے بعد جنگوں کو کیوں نہ بھڑکایا جائے۔جب جنگ کے متاثرین انصاف اور مدد کے لیے عدالت گئے تو انھوں نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ منصف تو وہی ہے جس نے جنگ کو شروع کیا ہے۔

لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ جو پیسہ آپ خرچ کر چکے ہیں، وہ آپ کا پیسہ ہے، لیکن جو آپ نے جمع کر رکھا ،پتہ نہیں کس کی دولت ہے۔اس مرتبہ روس کو سوئفٹ سسٹم سے نکالنے، روسی املاک کو منجمد کرنے وغیرہ جیسے اقدامات دیکھ کر میرا اس کہاوت پر یقین مزید پختہ ہوا ،بشرط یہ کہ موجودہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کے لیے امریکی ڈالر کی بالادستی برقرار رہے ۔

جب آپ کے ملک کی اشرافیہ اور سیاستدانوں کی دولت اور تقدیر امریکہ کے ہاتھ میں ہے تو ملک کی خود مختاری کیسے ممکن ہے؟یورپ کا امریکہ پر انحصار بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے بھگو کر ایک اوور کوٹ پہنا جائے، جسے اتاریں تو بہت ٹھنڈ لگتی ہے اور پہننے رکھیں تو مزید ٹھنڈ لگتی ہے۔

اگر آپ روس کی مذمت نہیں کرتے تو ہمارے دشمن ہیں،اور انصاف کے دشمن ہیں، اور آپ کو سنگین نتائج کا سامنا ہوگا۔انصاف کب سے اتنا خوفناک ہو چکا ہے؟ کیا نیٹو "لیگ آف جسٹس” ہے یا "لیگ آف ٹیررازم”؟

روسی بلیوں اور کتوں، موسیقی، آرٹ وغیرہ کا بائیکاٹ ،ایک جانب یہ ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی جنگ کے ذریعے لوگوں کو پہلی مرتبہ جنگ کی ہولناکیوں اور ظلم و بربریت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے (کچھ لوگوں کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری اور ہیرا پھیری کو ایک طرف چھوڑ دیں)۔ یوں عام لوگوں میں جنگ مخالف شدید جذبات کو ابھارا گیا ہے۔ دوسری جانب اس جذبے کا استحصال کیا گیا اور رفتہ رفتہ اکثریت کی تشدد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ من مانیوں پر مبنی بہت سی پابندیاں دراصل لوگوں کی اس تشدد سے بچنے اور زندہ رہنے کی خواہش کا مظہر ہیں۔

کچھ لوگ، جو امریکی آواز نہیں سنتے ،انہیں برخاست کر دیا گیا ہے، کچھ کو خبردار کیا گیا ہے ، اور کچھ پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔”گھٹیا لوگوں کا گھٹیا پن ان کی راہداری کا پروانہ ہے۔شریف لوگوں کی شرافت ان کی قبر کا کتبہ بن جاتی ہے”۔مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا مثالیں دیکھ کر لوگوں کو چینی شاعر بے تاو کے اس مشہور نظم کے حوالے سے مزید آگاہی ملے گی ؛ کیا انسانی دنیا میں کوئی امید ہے یا نہیں؟میں ایک جملے پر پختہ یقین رکھتا ہوں، برائی غالب نہیں آ سکتی۔