مفتاح اسماعیل

بجٹ بناتے ہوئے،ٹیکس تھوڑا بڑھایاہے اس سے عوام کو تکلیف ہوگی، مفتاح اسماعیل

اسلام آباد(لاہورنامہ) وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ پر آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے ،پیٹرول پر ٹیکس بڑھاتے ہیں تو وہ ہمارے جیب میں نہیں ملکی خزانے میں جاتاہے.

پاور سیکٹر کاکل خسارہ 16سو ارب ہوگیاہے جو دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے یہ ملک کولے ڈوبے گا،ملک میں زیرولوڈشیڈنگ نہیں کرسکتے کیوں کہ سپارٹ پر ایل این جی بہت مہنگی مل رہی ہے پہلے ہی59روپے فی یونٹ بنانے والے پلانٹس چلاناپڑرہاہے.

عمران خان نے ہمیں جیلوں میں ڈالنے کے بجائے کام کیاہوتاتو یہ حالات نہ ہوتے۔بجٹ بناتے ہوئے ڈالر کی کیاقیمت رکھی ہے یہ نہیں بتا سکتا ہوں،مشکل فیصلے لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ،ساری سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کریں گے۔ٹیکس تھوڑا سا بڑھایاہے اس سے عوام کو تکلیف ہوگی۔

ان خیالات کااظہاروزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وزیر اطلات مریم اورنگزیب اور وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ وزیرخزنہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ تمام افسران اور وزارتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے بجٹ بنانے میں کردار ادا کیا،ان کے اسی کام کی وجہ سے ان کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ درست فیصلہ ہے،مشکل وقت ہے اس میں بجٹ دیا ہے پاکستان مشکل گھڑی میں ہے 30سال میں اتنا مشکل وقت نہیں دیکھا حکومت کا نظام بدترہوگیا تھا اور مسائل بڑھا رہے ہیں ۔

اس وقت جو حالات ہیں ایسے حالات کا پاکستان کو کبھی سامنا نہیں رہا،پاکستان میں اگلے مالی سال میں 1100 ارب روپے کی سبسڈی توانائی کے شعبے میں ہے، 500 ارب روپے گردشی قرضے کو کم کرنے کیلئے ہے،یہ 1600 ارب روپے کی کل سبسڈی بنتی ہے،بجلی کی قیمتوں کے تعین کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے، ترسیلی نظام اور بد انتظامی کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوتی ہے۔16روپے حکومت فی یونٹ دیتی ہے یہ پیسے بھی عوام دیتی ہے 18روپے فی یونٹ عوام دیتی ہے ۔کل 30روپے فی یونٹ پڑرہاہے ۔پلانٹ بہت اچھے لگے ہیں مگر بجلی کی ترسیل میں مسائل ہیں یہ 16سو ارب کا نقصان ملک کو لے ڈوبے گا ۔

یہ دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔گیس کے شعبے میں 400 ارب کی سبسڈی ہے اور گردشی قرضہ 1400 ارب روپے ہے، 2 ارب روپے ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال سردیوں میں نقصان کیا ہے، ایل این جی کی عدم خریداری کی وجہ سے گیس کے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا،پی ایس او نے 500 ارب روپے کی وصولیاں کرنی ہیں۔پیٹرول کی سبسڈی لاکھوں روپے والا لے رہا ہوتا ہے ۔اور دیتا 50ہزار روپے والا ہے ۔گیس اپنے کارخانوں کو بین الاقوامی ریٹس پر دیں گے ۔وزیراعظم نے آئل کمپنیوں پر مزید ٹیکس لگانے کی ہدایت کی ۔

ایس این جی پی ایل میں 2سو ارب روپے کی گیس غائب ہورہی ہے ۔ہمیں اس گیس کا پتہ نہیں کہ یہ کہاں جارہی ہے ۔ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا جو خرچے برداشت نہیں کرسکتے وہ نہیں کرنے ہوں گے ۔وزیراعظم عمران خان نے جو سبسڈی دی یہ اس طرح ہے جب بینک میں پیسے نہ ہوں اور چیک دے دیں اور اس کے بعد بیرون ملک بھاگ جائیں کراچی میں اس کو ٹوپی گھمانا کہتے ہیں ۔مشکل فیصلے لیں گے اس وقت چوائس نہیں ہے کہ مشکل فیصلے نہ لیں۔

حکومت کی تین بڑی آئل کمپنیاں ہیں جن پر ٹیکس لگائیں گے تو حکومت ہی کو دینے پڑا گا، میں امریکہ اور دوحہ گیا ہوں صرف ایک ارب روپے ڈالر کی قسط کیلئے، یہاں اڑھائی ارب روپے کی گیس ہوا میں اڑا دیتے ہیں، سابقہ حکومت نے مارچ میں سبسڈی دی وہ آئی ایم ایف معاہدہ کے برخلاف تھی، پٹرول پر سبسڈی دے کر عمران خان نے بانس چیک دیا ہے،پاکستان ایٹمی ملک ہے اور باوقار لوگ رہتے ہیں،اس وقت ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے.