اسلام آباد (لاہورنامہ)سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی ملک کے لوگوں کے مفادات کیلئے ہوتی ہے، بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی ہے وہ کسی سے ہدایات نہیں لیتا، اگر آج قوم نے قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیراعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا.
پاکستان کے جس بھی وزیراعظم کو دھمکی ملے گی وہ وہی کرے گا جو مشرف نے کیا،میں غلامی کے خلاف میں کھڑا تھا،بڑا آسان تھا کہتا روس نہیں جائونگا ،ہم جب آئے تو پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا، ہمارے دوست ملک مدد نہ کرتے تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے،نیوٹرلز کو بتایا تھا کہ سازش کے اثرات ملک کی معیشت پر پڑیں گے،ملک کو اس دلدل سے صرف ایک چیز نکال سکتی ہے وہ واحد حل صاف و شفاف الیکشنز ہیں۔
جمعرات کو وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے بانیان وکیل تھے اور آزادی پاکستان کی تحریک میں وکلا کا بڑا کردار تھا، آج جو پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک ہے اس میں آپ کا سب سے بڑا کردار ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے کہتے ہیں کہ مجھے تحریک عدم اعتماد کو قبول کرلینا چاہیے تھا، میں آپ کے سامنے حقائق پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے ایسا کرنا چاہیے تھے۔
تحریک عدم اعتماد پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دہرایا کہ امریکی اسٹیٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا کی پاکستان کے سفیر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی انہوں نے پاکستان کے سفیر کو کہا کہ عمران خان روس کیوں گئے تھے، یہ عمران خان کا اپنا اقدام تھا اور امریکا اس پر بہت ناراض ہے۔
سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو نہیں ہٹایا تو پاکستان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت تک عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش نہیں کی گئی تھی، 7 مارچ کو یہ ملاقات ہوئی، 8 مارچ کو اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور ایک دم ہمارے اتحادیوں کو خیال آیا ہے کہ یہ حکومت بہت بری ہے۔انہوںنے کہاکہ امریکی سفارت خانہ ہماری جماعت میں موجود 15، 20 لوٹوں سے بار بار ملاقات کررہا تھا، جس کے بعد امریکی سفارت خانہ اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرنے لگا، ہمارے پاس ساری رپورٹ موجود ہے۔
عمران خان نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا کام خارجہ پالیسی پر تبادلہ خیال کرنا ہے ان کا کام ہمارے بیک بینچرز سے ملنا نہیں ہے، پھر انہوں نے خیبرپختونخوا میں ہمارے وزیر عاطف خان سے ملاقات کی اور کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ اس کے بعد ہمارے اتحادی الگ ہوئے اور سندھ ہاؤس میں ایک منڈی لگی جہاں 20، 20 کروڑ روپے کی پیش کی گئی، اس کے بعد حکومت گر گئی۔سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے آغاز میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب آئے تو پاکستان دیوالیہ ہونے والا تھا، ہمارے دوست ملک مدد نہ کرتے تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے۔
انہوں نے کہاکہ بہت مشکل سے پہلا سال گزرا جس کے بعد دوسرے سال میں کورونا وائرس آگیا، اس وقت ساری دنیا نے دباؤ ڈالا کہ لاک ڈاؤن کرو، ہم دنیا بھر کا پریشر برداشت کیا اور مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا، دو سال بعد دنیا نے مثال دی کہ جس طرح پاکستان کورونا وائرس سے نمٹا ہے یہ دنیا کے لیے مثال ہے۔انہوںنے کہاکہ پہلے سال میں ہماری معاشی کارکردگی 5.6 فیصد جبکہ دوسرے سال 6 فیصد تھی یعنی تین سالوں میں ہماری معاشی کارکردگی سب سے بہترین تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں زراعت میں مسلسل دو سال اضافی تعداد میں فصل پیدا ہوئی، جبکہ صنعت اور ٹیکسٹائل نے بھی ذبردست ترقی کی، جب ملک ایک صحیح سمت میں گامزن تھا تو کیا وجہ ہوئی کہ انہیں لگا کہ حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک وجہ تھی وجہ سازش تھی۔عمران خان نے تقریب کے شرکا کو کہا کہ اگر آج پاکستانی قوم نے اس کے خلاف قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کا کوئی وزیراعظم آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلا سکے گا۔انہوں نے کہاکہ مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکا سے دھمکی ملی تھی کہ اگر آپ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم پاکستان کو بم سے اڑا دیں گے اور ہم نے امریکا کی ایک دھمکی کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے تھے، اس دوران پاکستان میں 400 ڈرون حملے ہوئے کئی شہری جاں بحق ہوئے، لیکن کسی نے ان کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔
انہوں نے کہاکہ یہ ہے غلامی، اور اس غلامی کے خلاف میں کھڑا تھا، میرے لیے بھی یہ بہت آسان تھا کہ میں کہتا کہ میں روس نہیں جاؤں گا۔انہوں نے کہا کہ میرا روس جانے کا مقصد کم قیمت پر گندم اور تیل خریدنا تھا، یہ میری ذات کے لیے بلکہ میرے لوگوں کے لیے فائدہ مند تھا۔انہوں نے کہاکہ میں امریکیوں کو بہت اچھے سے جانتا ہوں، جب تک آپ امریکا کے سامنے جھکتے جائیں گے وہ آپ کو ڈو مور کہتے جائیں گے، آپ کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اگر آپ اپنے ملک کے مفادات کے لیے اسٹینڈ لیں گے تو آپ کی عزت کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ کونسا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سندھ ہاؤس میں ہارس ٹریڈنگ کی جائے، نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مداخلت ہوئی ہے، اگر مداخلت ہوئی ہے تو کیا اس کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ تھا کہ جو بھی پاکستان کا وزیر اعظم آئے گا جب اسکو دھمکی ملے گی وہ بھی وہی کرے جو جنرل مشرف نے کیا تھا، ایک ہی ٹیلی فون کال پر کسی اور کی خارجہ پالیسی کے لیے اپنے ملک کے مفادات قربان کردے گا۔