لاہور (لاہورنامہ) حمزہ شہباز کو وزیراعلی پنجاب کے عہدے سے ہٹانے اور حلف کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بروز جمعرات 30 جون کو سنایا جائیگا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں جسٹس شاہد جمیل خان، جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی پنجاب کے عہدے سے ہٹانے اور حلف کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، حمزہ شہباز کے وکیل، سابق وزیر قانون پنجاب اور پی ٹی آئی رہنما عدالت میں پیش ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو روسٹرم پر بلاکر استفسار کیا کہ آپ صدر سے متعلق آبزرویشن کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟۔ جس پر احمد اویس نے کہا کہ صدر پاکستان ریاست کا سربراہ ہے، عدالت عالیہ اس حوالے سے ریمارکس کو کالعدم قرار دے، جس پر جسٹس ساجد محمود نے ریمارکس دیئے کہ جب صدر پاکستان کو سنا ہی نہیں گیا تو پھر ان کے بارے میں ریمارکس کیسے دے سکتے ہیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کے سامنے تین طرح کی درخواستیں زیر سماعت ہیں، ایک الیکشن سے متعلق، ایک حلف سے متعلق اور ایک غیر قانونی اقدامات سے متعلق کیس ہے۔ حمزہ شہباز کی جانب سے دلائل دیئے جانے کے دوران جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیئے کہ ڈی سیٹ ہونے والے اراکین کا ریفرنس بھیج دیا گیا، سپریم کورٹ میں معاملہ زیر سماعت تھا وزیراعلی کا الیکشن ہوا، مگر اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہم اس فیصلے کو کیسے نظر انداز کردیں.
یہ فیصلہ ماضی پر اطلاق کرتا ہے آپ اس پوائنٹ پر معاونت کریں۔ جوابا حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ میں نے اپنے تحریری دلائل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مستقبل کے کیسز پر اطلاق ہوا۔
جس پر جسٹس شاہد نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ میں جاکر اس فیصلے پر نظر ثانی کروائیں، اس کے علاہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، ہم تو سپریم کورٹ کا فیصلہ اطلاق سمجھتے ہیں۔ جسٹس شاہد جمیل نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کی تشریح موجودہ حالات میں لاگو ہوگی۔ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا تو ہم فوری احکامات جاری کریں گے۔
مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں۔ ہم الیکشن کو دیکھ رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو دیکھ رہے ہیں۔ فل بینچ کا کہنا تھا کہ ہم ایک فیصلہ دیں کہ وزیراعلی کا انتخاب کالعدم اور نیا انتخاب کروائیں.
اگر ہم ایسا کریں گئے تو سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف ہوگا، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ منحرف اراکین کے ووٹ ڈالنے پر انتخاب کالعدم قرار دیا جائے، حکم یہ ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں، آپ سپریم کورٹ کی تشریح کو پڑھ سکتے ہیں۔
اس موقع پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت جمعرات 30 جون ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔