ویا نا (لاہورنامہ)عالمی ایٹمی توانائی ادارے کا 66 واں اجلاس 26سے 30ستمبر تک ویانا میں منعقد ہوا،جس میں امریکہ،برطانیہ اور آسٹریلیا کے جوہری آبدوز تعاون کو ” قانونی حیثیت ” دینے کی سازش کی گئی۔
اس حوالے سے ویانا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور دیگر عالمی تنظیموں کے لیے چینی سفیر وانگ چھون نے بتایا کہ تینوں ممالک نے اس اجلاس میں جوہری آبدوز تعاون کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ترمیم کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی ،تاہم اسے ناکام بنادیا گیا۔ رواں برس "آکس” جیسے چھوٹے گروپ کے لیے دوسرا بڑا دھچکا ہے۔
گزشتہ سال ستمبر سے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ جوہری آبدوزوں کی تیاری میں تعاون کے لیے ایک گروپ بنائیں گے، جس نے دنیا بھر کے سنجیدہ ممالک کو پریشان کردیا۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے، رائے عامہ کی ایک جنگ کے ذریعے جوہری پھیلاؤ کو نام نہاد "نیوی پاور ری ایکٹر” سے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
لیکن یہ سازشیں ناکامی سے دوچار ہوں گی کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔قوانین کے احترام کی بات کرنے والےامریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے مذکورہ آبدوز معاہدے کے ذریعے تین بڑے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
سب سے پہلے، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ دوسرا، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ تیسرا، ساؤتھ پیسیفک نیوکلیئر فری زون ٹریٹی کی خلاف ورزی کی گئی۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ-برطانیہ-آسٹریلیا جوہری آبدوز تعاون "تین خلاف ورزیوں” کا حامل منصوبہ ہے۔ ایک بار لاگو ہونے کے بعد، یہ لامحالہ علاقائی جوہری تحفظ اور سلامتی کے لیے سنگین چیلنج لے کر آئے گا۔ بعض ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اگر یہ راستہ ایک بار کھل گیا تو یہ عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کے عمل میں بھی بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔