خواجہ سعد رفیق, ریلوے کی آمدن

ریلوے کی آمدن میں فوری اضافے کیلئے بزنس ماڈل تیار ہیں، خواجہ سعد رفیق

لاہور(لاہورنامہ)وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ریلوے کی آمدن میں فوری اضافے کے لئے بزنس ماڈل تیار کئے ہیں جن پر پیشرفت کر رہے ہیں.

سپریم کورٹ نے ریلوے کی زمینوں کو نجی شعبے کو دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے جس میں زمینوں کو شارٹ ٹرم یا مڈ ٹرم لیز پر دینے کے لئے مضبوط کیس پیش کریں گے،

وزیر اعظم کے دورہ چین میں ایم ایل ون کے حوالے سے اپنی تیاری کر رہے ہیں، اس دور ے میں کراچی سر کلرریلوے کا معاملہ بھی آگے بڑھایا جائے گا، پاکستان کے اداروں کو تجربہ گاہ نہ بنایا جائے اور جو پالیسیاں ہیں ان کو سنجیدگی سے لیا جائے ، پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے معاملے پر ریلوے کے گریڈ 19کے افسر کا استعفیٰ منظور نہیں کر رہے.

میں اس معاملے کو اب خود دیکھ رہا ہوں اور کوشش ہو گی کہ اسے خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے۔

ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان میں اس برس بارشوں سے صدری کا ریکارڈ ٹوٹا ہے ،سیلابی بارشوں سے وطن عزیز کے کروڑوں باسی بری طرح متاثر ہوئے وہیں ریلوے کے سسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب تک کے نقصانات کا تخمینہ سوا پانچ سو ارب روپے کا ہے ۔

ریلوے کے سیکرٹری سے لے کر مزدور تک نے بے مثال کام کیا ہے اور اسی محنت کی بنیاد پر ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ریلوے کے آپریشن کو دوبارہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مالی سال میں ریلویز کی مالی حالت کو بری طرح جھٹکے لگے ہیں ، ہم نے اس بار جب ریلوے واپس لی تو خسارہ ساڑھے 47ارب تک پہنچ چکا تھا اور آمدن 60ارب تھی ۔

اس برس ڈیزل کی قیمتیں ناقابل یقین حد تک اوپر گئی ہیں اور پاکستان ریلوے کا آئل بل جو2021-22ء میں 20ارب روپے سے زائد تھا وہ 2022-23ء میں اگر قیمتیں واپس نہیں جاتیں تو 36ارب روپے تک پہنچے گا ۔اس کے علاوہ ڈالر ریٹ اوپر گیا ہے اس سے ہماری ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر ہوا ہے اور یہ ایسے جھٹکے ہیں جو ناقابل برداشت ہیں، صورتحال یہ ہے کہ 2020ء کے واجبات بھی ادا کرنے والے تھے اور خوفناک صورتحال ہے اس کے اوپر اس رہی سہی کسر سیلابوں نے پوری کر دی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کئی ہفتے تک ریل آپریشن بند رہا ہے اور روزانہ کروڑوں روپے نقصان ہوا ہے ۔ہمارے پاس ریل کا پہیہ چلانے کے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ ہم ہاتھ پھیلا ئیں لیکن کہاں پھیلائیں کہاں پیسے مانگنے جائیں ، وفاقی حکومت کے اپنے مالی حالات بہتر نہیں ہے و ہ پاکستان سے باہر ہاتھ پھیلائیں کیا ہم نے یہی کام کرنا ہے ۔

بہت نقصان ہوئے ہیں گو کہ حیثیت سے بڑھ کر ہے لیکن اس کا مقابلہ کریں گے ، ہم اپنے آپ کو آرگنائز کریں اخراجات مزید کم کریں اور آمدن بڑھائیں ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان ریلویز کی زمینیں گزشتہ دور میں ڈیجیٹلائز کر گئے تھے اور ان کا ریکارڈ سنگل کلک پر موجود ہے ، سپریم کورٹ سے ایک جاری کیا جا چکا ہے کہ ریلوے لینڈز ریلوے کے کور بزنس کے لئے استعمال ہو ں گی ،اس سے ریلوے کو مالی طور پر بہت بڑا جھٹکا لگا ہے اوراربوں روپے کا نقصان ہو اہے ۔

ہم نے نظر ثانی پٹیشن ڈال دی ہے اور درخواست کی ہے کہ اسے پرنسپل سیٹ پر سنا جائے ، ریلوے نے زمینوں کے کمرشل استعمال سے 2.7ارب روپے گزشتہ سال کمائے ہیں، اگر سپریم کورٹ سے اجازت مل گئی تو ہماری آمدن تین گنا بڑ ھ سکتی ہے جس سے ریلوے کو سال کا چھ سے سات ارب آمدن کی صورت میں مل سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دس سال میںزمینوں کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آئے اور یہ ہمارے کیس میں مضبوط نقطہ ہوگا ۔

چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کیس کو جلد لگا دیں اور ہم اپنی درخواست اور دلائل پیش کریں گے ۔ جب جیل میں تھا تو یہ کیس لگا ہوا تھا وزارت ریلوے نے صحیح طریقے سے اس کا مقدمہ نہیں لڑا ۔انہوںنے کہا کہ 1999ء لیز پر پابندی لگا دی تھی گئی لیکن شارٹ ٹرم یا مڈ ٹرم لیز لازمی ہے ،ہم پندرہ یا اٹھارہ سال پر زمین نہیں دیں گے تو پریمیم نہیں ملے گا .

ہم نے کوئی چیز نہیں بیچنی لیکن مڈ ٹرم پر دیں پڑنی ہے ،ریلوے کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ پونے دو لاکھ ایکڑ زمین کی حفاظت کرے ، یہاں چھوٹے بڑے مافیاز ہیں ہر وقت کی جنگ ہے ، لڑائی ہوتی رہی ہے ،اس پر اخراجات جاتے ہیں ، شارٹ یا مڈ ٹرم لیز سے پیسہ آنا شروع ہو جائے گا ، یہ وہ راستہ ہے جس سے فوری آمدن ہو سکتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیز جو ریلوے ٹریک سے پیچھے جگہ لے لیتی ہیںپھر کہتی ہیں ہم نے انڈر پاس بنانا ہے یہ اچھی بات ہے ، ،پہلے ریلوے چند ٹکوں کی عوض اجازت دیتی تھی لیکن اب جودس کروڑ روپے جمع کرائے گا اور تکنیکی طور پر کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو ریلوے اس کی اجازت دیدے گی ، امیر آدمی کو بھی حصہ ڈالنا چاہیے ، اس کے ساتھ وہ فینسنگ کریں گے اور گرین بیلٹ کی مینٹی ننس بھی کریں گے.

اس پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ فریٹ آپریشن میں ریلوے کے کرائے روڈ ٹرانسپورٹ سے کم رہیں گے لیکن اتنے کم نہیں رہ سکتے کہ آپریشنل کاسٹ پوری نہ ہو ، اب ٹرین نقصان پر نہیں چل سکتی ، سیاست بازی کے لئے نمائش کے لئے روز نئی ٹرین چلائیں اور وہ نقصان دیں یہ ممکن نہیں ، فریٹ ٹرین چل رہی ہے اور اپنی پوری استعداد سے چل رہی ہے، فریٹ کے کرائے روڈ ٹرانسپورٹ سے کم رہیں گے ،جہاں جہاں ریشنلائز کرنا پڑے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بعض ٹرین چلائی ہیں اور ان کے کرایوں میں رد و بدل کیا ہے ،اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے، بھیک مانگنے سے قرض مانگنے سے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے ریلوے اپنے پائوں پر کھڑی ہو۔ انہوںنے کہا کہ کوئٹہ تفتان سیکشن بہت کمزور سیکشن ہے وہاں پسنجر آپریشن نہیںہو سکتا۔ ، وہاں ٹرین چلتی ہے وہاں چاول جاتا ہے اور سیمنٹ آتا ہے اور پانچ دن کا وقت ہے .

اگر ٹریک فٹ ہو جائے اور ریلوے کمرشل پر توجہ دے تو ہم پچاس کروڑ روپے کما سکتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ٹرن اون ٹائم کریں ، میں نے کہا ہے کہ اس کے لئے الگ اکائونٹ کھولیں اور آپ جو کمائی کریں اسی ٹریک پر خرچ کرتے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ سبی ہرنائی سیکشن پرنوے فیصد کام پورا کر چکے تھے لیکن گزشتہ حکومت کے چار سال میں دس فیصد مکمل ہوا نہیں ، سکیورٹی کے بہت سنجیدہ مسائل ہیں،ملٹری کمانڈ اورایف سی نے تعاون کا یقین دلایا ہے ۔

ہم نے جو پشتے تعمیر کئے تھے سیلاب سے اس کو نقصان ہو اہے اس کاتخمینہ لگا رہے ہیں ، چند ماہ کا کام باقی ہے وہاں پر ریلوے کا پہیہ چل جائے۔ وہاں پر چار ضلعے ہیں ،کوئل مائنز ہیں ، لوگوں کی زندگی کا لائف سٹائل تبدیل ہو جائے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے مزید بتایا کہ آپٹک فائبر کے لئے مختلف کمپنیاں ریلوے سے رابطہ کرتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہم کرایہ لے لیں اور ریلوے ٹریک کے ساتھ آپٹک فائبر ڈالنے دیں ، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ شفاف بولی کے ذریعے موقع ملے گا جو بیسٹ پیشکش دے گا لیکن آمدن شیئر کرے گا اسے اجازت دی جائے گی.

ضرور کاروبار کریں لیکن ریلوے کو بھی ریلوے کا حصہ دیں ، ہم نے وفاقی حکومت کو تجویز بھجوائی ہے اگر منظوری مل گئی تو چند ماہ بعد آمدن میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انٹر نیشنل معیار کی حامل کمپنی سیف سے معاہدہ طے ہو گیا ہے اب تمام تنخواہیں پنشن ٹینڈرنگ خریداری سٹور پرچیز لینڈز ہر چیز ای آر پی کے تحت کمپیوٹر ائزڈ ہو گی ساڑھے تین سال میں عملدرآمد ہو جائے گا اور شفافیت آئے گی اور اس سے جہاں جہاں نقصان ہیں کور کرنے میں مدد ملے گی ۔