اسلام آباد (لاہورنامہ)وزیراعظم شہبازشریف نے واضح کیا ہے کہ مدد کی بھیک نہیں، عالمی برادری سے ماحولیاتی انصاف چاہتے ہیں، حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کو ان امیر ممالک سے مدد کی بھیک مانگنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل نے جنم لیا ہے.
مالی معاونت قرض کی صورت میں نہیں چاہیے، غیرملکی قرض کی معطلی کیلئے چین اور پیرس کلب سمیت سب سے بات کریں گے، ہم مالیاتی گنجائش کی بات کررہے ، ہم قرض کا مزید بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔
ممتاز برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ پاکستان کو اس وقت صحت، غذا اور تباہ کن سیلاب سے بے گھر ہونے والے شہریوں جیسے مسائل کا سامنا ہے، مون سون کی تباہ کن بارشوں سے ایک تہائی پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بعض علاقوں میں 1.7 ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ یہ اب تک ہونے والی سب سے زیادہ بارش ہے۔
انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے،ماحول میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا 0.8 فیصد حصہ بنتا ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے تاہم ترقی یافتہ ممالک اس صورتحال کے اصل ذمہ دار ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی تباہی کبھی نہیں دیکھی جو حالیہ سیلاب سے ہوئی ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے آگئے ہیں، وہ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن چکے ہیں، اربوں کی عالمی امداد اور عطیات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں کہاکہ اگرچہ مزید مدد کا بھی وعدہ کیا گیا ہے لیکن یہ ”ناکافی” ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ تباہی کا حجم اور دائرہ اتنا وسیع ہے جو پاکستان کے اپنے وسائل سے پورا ہونا ناممکن ہے،ضروریات اور دستیاب وسائل میں بے پناہ خلیج ہے اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ برطانوی اخبار نے لکھا کہ پاکستان میں سیلاب سے 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جبکہ 1600 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ یہ ابتدائی تخمینہ ہے تاہم ان اعدادوشمار میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے.
30 ہزار کلومیٹر سٹرکیں بہہ گئی ہیں، پْل، ریلویز، بجلی کا ترسیلی ڈھانچہ اور 4 ملین ہیکٹر فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہاکہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ماحولیاتی انصاف چاہیے، ہم کسی کو موردالزام نہیں ٹھہرا رہے، ہم کسی پر الزام نہیں لگارہے،ماحولیاتی تباہ کاری کے ہم ذمہ دار نہیں بلکہ ہم اس کا نشانہ بنے ہیں۔
میری (مددکی) اپیل کو کیا کشکول میں بدلنا چاہیے؟ یہ دوہری سزا ہوگی، یہ نا انصافی ہوگی۔ اخبار نے لکھا کہ وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت نے سابق حکومت کی وجہ سے پٹڑی سے اترنے والے آئی ایم ایف معاہدے کو بحال کرکے پاکستان کو معاشی طورپر دیوالیہ ہونے سے بچالیا اور اگلے سال 22 ارب روپے کی مجوعی غیرملکی قرض کی ادائیگی کے بھی قابل ہوگا۔
وزیراعظم نے کہاکہ ”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے۔” انہوں نے کہاکہ غیرملکی قرض کی معطلی کے لئے چین اور پیرس کلب سمیت ہم سب سے بات کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ ہم مالیاتی گنجائش کی بات کررہے لیکن ہم قرض کا مزید بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔ انہوں نے کہاکہ تباہی کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ جس رفتار سے ہم متاثرین اور متاثرہ علاقوں تک امداد پہنچانا چاہتے ہیں، اس میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔
آپ وہ علاقہ دیکھیں جو پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ان تک پہنچنا بھی محال ہے کیونکہ راستے ہی کٹ چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شفافیت اور ساکھ کو یقینی بنانے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے رقوم تقسیم کی جارہی ہیں،وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ نے پاکستانیوں کے دل چھو لئے ہیں، انہوں نے صرف الفاظ سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی ہمارے لئے آواز بلند کی ہے، وہ بہترین کام کررہے ہیں تاہم درپیش تباہی کے مقابلے میں یہ ناکافی ہیں، اس کیلئے بہت بڑا اور بہت جامع منصوبہ درکار ہے تاکہ متاثرین کی آبادکاری ہو اور وہ معاشی طورپر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
ایک دہائی قبل 100 ارب ڈالر کی مالی اعانت کے امیر ممالک کے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے سوال کیا کہ ”وہ امداد کہاں ہے؟ وقت متقاضی ہے کہ ہم سوال اٹھائیں اور اْن ممالک کو یاد دہانی کرائیں کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدے پورے کریں۔