ایل پی جی سلینڈر

سردیوں میں گیس کے کم پریشر کا سامنا، ایل پی جی سلینڈر فراہم کرنے کا منصوبہ تیار

لاہور (لاہورنامہ)سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل)نے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ایسے صارفین کو لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی)سلنڈر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جنہیں اکثر سردیوں کے دوران گیس کے انتہائی کم پریشر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایس این جی پی ایل نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہنے والے 10 لاکھ ایسے صارفین کی نشاندہی کی ہے جو ایل پی جی سلنڈر کی فراہمی کے اہل ہیں۔پٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایس این جی پی ایل کے ایک سینئر افسر کو ایل پی جی سپلائی آپریشن کو انجام دینے کا کام سونپا گیا ہے چونکہ یہ اقدام عوامی مفاد میں کیا جا رہا ہے اس لیے صارفین کو ایل پی جی نو پرافٹ نو لاس ماڈل یعنی بغیر کسی منافع یا نقصان کے فراہم کی جائے گی۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایس این جی پی ایل کے 70 لاکھ صارفین ہیں جن میں اکثریت گھریلو صارفین کی ہے، گیس کے مقامی ذخائر میں کمی اور بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے کمپنی کو کئی برسوں سے گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ایس این جی پی ایل نے صنعت، بجلی اور دیگر شعبوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد بھی شروع کر دی ہے، بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے کل ایل این جی سپلائی میں ایل این جی کا حصہ تقریبا 55 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ایل پی جی سپلائی آپریشن شروع کرنے سے قبل ایس این جی پی ایل پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر عوام کے لیے آگاہی مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سخت سردیوں میں گیس کی قلت بڑھنے کی صورت میں صارفین کو صرف کھانا پکانے کے اوقات میں گیس فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کمپنی سے کہا گیا کہ وہ صنعت خصوصا برآمدات اور بجلی کے شعبوں کو گیس کی فراہمی یقینی بنائے، سی این جی سیکٹر کو گیس کی سپلائی پہلے ہی بند ہے اور آنے والے دنوں میں بھی یہ بندش برقرار رہنے کا امکان ہے۔

عہدیدار نے بتایا کیا کہ ایل پی جی کی فراہمی کا منصوبہ فی الحال صرف پنجاب تک محدود ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں گیس کی کوئی کمی نہیں ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ آئین کے تحت ایس این جی پی ایل خیبرپختونخوا کی ضرورت کے مطابق مکمل سپلائی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے جو کہ گیس پیدا کرنے والا بڑا صوبہ ہے۔

ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال نئے گیس کنکشن کی فراہمی پر پابندی عائد کی تھی جس سے نہ صرف صارفین پریشان ہوئے بلکہ اس کا بیک لاگ بھی بڑھ کر 28 لاکھ تک پہنچ گیا۔کمپنی نے موقف اختیار کیا کہ جب گیس کی وافر فراہمی نہیں ہے تو نئے کنکشن کیسے دیے جاسکتے ہیں؟ کمپنی کا دعوی ہے کہ گزشتہ مالی سال میں بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے نئے کنکشن دیے گئے تھے۔

گھریلو صارفین کیلئے گیس کے نئے نرخ طے کرنے میں تاخیر بھی پابندی کی ایک بڑی وجہ ہے، گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں کو معقول بنانے کی وجہ ری گیسیفیکیشن کے بعد درآمدی ایل این جی کی فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے آئی جس کی لاگت بہت زیادہ ہے بالآخر حکام گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں کا ایک نیا فارمولا تیار کرنے پر مجبور ہوئے جسے تقریبا حتمی شکل دے دیا گیا ہے، نئے گیس کنکشن کے لیے 28 لاکھ درخواستوں کے بیک لاگ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 25 ہزار روپے کی فیس کے عوض ارجنٹ کیٹیگری میں گیس کنکشن حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

اگست میں ایس این جی پی ایل نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ اس کی ری گیسیفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی)کی کھپت مقامی سپلائی میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے کل سپلائی کے 55 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے سبب آر ایل این جی پر انحصار بڑھ گیا۔ایس این جی پی ایل نے گیس کے وزن کے مطابق اوسط قیمت متعارف کرانے کے حکومتی منصوبے کا بھی حوالہ دیا جس کے حوالے سے کمپنی نے دعوی کیا کہ اس سے عوام کے لیے آر ایل این جی کی قیمت میں تخفیف اور کمی ممکن ہوگی۔