موتی مسجد

موتی مسجد


موتی مسجد لاہور کے مشہور انجینئر مامور خان نے جہانگیر کے محل کے بیرونی دروازہ کے پاس تعمیر کروائی تھی۔ لاہور میں تعمیر کی جانیوالی اس مسجد کے گول موتی نما گیند کی مناسبت سے اس کو ’’موتی مسجد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے بعض مورخین کے مطا بق مسجد کا سنہ تعمیر 1007 ہجری بمطابق 1598 عیسوی ہے

سکھ دور میں اس مسجد کو بطور شاہی خزانہ استعمال کیا جاتا رہا۔ اس مقصد کے لئے مسجد کا مرکزی دروازہ مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے بند کر دیا گیا تھا اور باقی محراب نما دروازوں میں اینٹ کی دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ مسجد کے کھلے دالان کے سامنے والے حصہ پر عارضی طور پر سایہ دار چھت تعمیر کر دی گئی تھی جس کے سامنے ایک ڈبہ نما چوبی کمرہ پہرہ داروں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا
سجد کی یہ حالت سکھ دور کے بعد انگریزوں کے دور میں بھی برقرار رہی لہٰذا ۔ فروری 1900 ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ایشیائی سوسائٹی آف بنگال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب میں گزشتہ سال اپریل میں لاہور تھا تو میں نے تین سو سال قبل تعمیر شدہ شہنشاہ جہانگیر کی انتہائی خوبصورت مسجد کو دیکھا جو سکھ دور حکومت کی طرح اس وقت بھی بطور شاہی خزانہ استعال ہو رہی تھی۔ اس چھوٹی سی مسجد کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے ازسر نو تعمیر کرنے خواہش کا اظہار کیا تھا‘‘۔

صر حاضر میں قلعہ لاہور کے ٹکٹ گھر سے پہلے اوپر کو ایک راستہ قلعے کی عمارت کو جاتا ہے۔ اوپر جاتے ہی بائیں جانب عہد جہانگیری کا تعمیر کردہ کتب خانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے بائیں یہ خوبصورت مسجد ایک چبوترے پر تعمیر ملتی ہے۔ اس مسجد کی مشرقی سیدھ میں اکبر کے عہد کی تعمیر کردہ ایک اور مسجد کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسجد کا دروازہ ، مسجد کی دائیں جانب کی دیوار میں سے نکالا گیا ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی مسجد کا صحن سنگ مر مر سے مزین ملتا ہے اور چاروں جانب دیواروں پر پھول بوٹیوں کا خوبصورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحن سے آگے ایک برآمدہ ہے جس میں مغل طرز تعمیر کی محرابی دیواریں آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں