لاہور(لاہورنامہ)سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ الزامات لگانا اور سیاسی مخالفین کا چہرہ داغدار کرنا رواج بن گیا ہے. تحریک انصاف والوں نے استعفے دئیے ہیں لیکن ابھی تک پارلیمنٹ لارجز میں مقیم ہیں.
سیکرٹریٹ سے قومی اسمبلی کے پاسپورٹ پر بیرون ممالک کے ویزے بھی لگواتے ہیں ، پرائیویٹ طور پر آ کرملتے ہیں ہم نے دبائو میں استعفیٰ دیا اور ہم یہ رہے تھے کہ ماضی کی طرح بات ختم ہو جائے گی ، معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے ، ان شا اللہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کر ے گا .
الزامات لگانا اور سیاسی مخالفین کا چہرہ داغدار کرنا رواج بن گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ اور دیگر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہاں صرف الزامات لگائے جاتے ہیں ،میڈیا ٹرائل اور کردار کشی ہو کی جاتی ہے ، یہاں لیڈر شپ پر کیا کیسز بنتے رہے ، محترمہ بینظیر بھٹو پر کیسز بنائے گئے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ۔
کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس پر کیسز نہیں بنے ،یہ رویہ ہے کہ مخالفین کے چہرے داغدار کر دو الزامات کی بارش کر دیں، یہاں کیس بعد میں رجسٹرڈ ہوتا ہے تفتیش بعد میں ہوتی ہے لیکن میڈیا ٹرائل اور عدالتیں پہلے لگ جاتی ہیں اور جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ بد نام ہو جاتا ہے ،پانچ سال بعد عدالت کہتی ہے آپ کو با عزت بری کیا جاتا ہے تو بتائیں اس وقت تک کیا عزت رہ جاتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں ایک شخص بتا دیں جس الزامات نہیں ہیں، یہ ایک رواج بن گیا ہے کہ دوسرے کو اتنا برا کہو کہ اپنا چہرہ چمک اٹھو دوسرے کا چہرہ داغدار کرو، سب نے اس گلی میں گزرنا ہوتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ عمران خان نے بہت الزاما ت لگائے ، اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو سیاسی استحکام نا گزیر ہے ، خدمت کی سیاست عوام کی خدمت کرنی ہے تو اس گند کھیل سے باہر نکلنا پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ 2002ء کے بعد یہ اچھی سوچ تھی کہ ہر اسمبلی مدت پوری کرے ، اس سے پہلے اسمبلی وقت سے پہلے رخصت ہو جاتی تھیں اور سارا نظام ہل رہا تھا ،آ پ کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کر سکتے تھے ۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت اگست میں پوری ہونی ہے اس میں کتنا وقت رہ گیا ہے ، اگر اسمبلیاں مدت پوری کرتی ہیں تو یہ اگلی اسمبلیوں کے لئے اچھا ہوگا۔ انہوں نے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے حوالے سے کہا کہ ان کے استعفے آئے لیکن یہ ابھی تک پارلیمنٹ لارجز میں مقیم ہیں ، پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں ، اسمبلی سیکرٹریٹ استعمال کرتے ہیں ، باہر جانے کے لئے ویزے لگواتے ہیں ، پھر مجھے نجی طور پر آکر کہتے ہیں کہ ہم نے دبائو میں استعفیٰ لکھا تھا ، ہم سمجھتے تھے ایسے ہی ایک دبائو ہے اور ماضی کی طرح بات ختم ہو جائے گی ۔
اگر کوئی شخص میرے سامنے بیٹھ کر بھی استعفیٰ لکھا لیکن مجھے فون آجائے کہ یہ یہ بڑا مجبور ہو کر لکھ رہا ہے تو قانون مجھے کہتا ہے کہ استعفیٰ منظور نہیں کرنا ۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت کا حصہ نہیں ہوں پارلیمان ہوں ،مولانا فضل الرحمان بڑے لیڈر ہیں ، وہ سیاست کی نبض سمجھتے ہیں انہوں نے جو بات کی ہے وہ کچھ سوچ کر کی ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ یہ مثبت بات ہے کہ اسحاق ڈار صدر عارف علوی سے ملتے ہیں ،رابطے منقطع نہیں ہو سکتے ، ہماری کوئی دشمنیاں نہیں ہیں،یہ ہم سب کا ملک ہے ۔راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ ملک کسی ایک جماعت شخص یا گروہ کا نہیں بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے ، میری بھی خواہش ہے کہ ملک میں استحکام ہو ، ملک میں جب تک استحکام نہیں آئے گاملک ترقی نہیں کر سکتا .
کوئی بھی ملک غیر یقینی کی صورت میں ترقی نہیں کر سکتا ، سیاسی استحکام معاشی استحکام ہے ،ہر جماعت اس ملک کی جامعت ہے سب ملک سے پیار کرتے ہیں ، دست و گریبان ہونے کی بجائے ملک کا سوچنا چاہیے ، اگر کسی کے پاس کوئی تجاویز ہے کسی مشکل کا حل ہے تو اس کو سامنے رکھنا چاہیے اور صرف تنقید کرنا اور کسی کی تضحیک کرنا مقصود نہیں ہونا چاہیے ، گالی گلوچ سے معاملات خراب تو ہو سکتے ہیں ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے ملک کے ڈیفالٹ کی نہج پر پہنچنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ اللہ نہ کرے اس طرح کے الفاظ ادا کرنا بھی کفر ہے ، ملک میں اگر آپ غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دیں ، لوگوں کے اعتماد گزند پہنائیں گے یہ ملک دشمنی ہے ،پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا،مشکلات کس ملک کے اوپر نہیں آتیں.
ہر ملک نے کسی نے کسی دور میں مشکلات کا سامنا کیا ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہاتھ پائوں چھوڑ کر بیٹھ جائیں ، یہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے وسائل سے نوازا ہوا ہے ۔یہ طے ہے کہ جب تک استحکام نہیں آئے گاملک ترقی نہیں کر سکتا ہے، ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کی بجائے ملک کا سوچنا ہوگا۔حسن مرتضیٰ نے کہا کہ میں پنجاب اسمبلی میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں، میں ہر وقت چاہتا ہوں تبدیلی ہو جائے لیکن آئینی و قانونی طریقے سے ہو ۔اگر ایسا ہوا تو پیپلز پارٹی اس میں اپنا کردار ادا کرے گی۔