اسلام آ باد (لاہورنامہ) پاکستان کو شدید اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں آنے والے سیلاب کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے ملک کی مختلف درآمدات اضافی مالی دبا ڈال رہی ہیں۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2021 میں پاکستان کی سویا بین کی درآمدات تقریبا 1.145 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ گزشتہ سال کی نسبت تقریبا 50 فیصد زیادہ ہے، جو ملک کی سویابین کی فوری طلب کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم مالی سال 2023 کی پہلی سہ ماہی میں، پاکستان کی سویا بین کی درآمدات 269 ملین ڈالرتھیں، جو کہ گزشتہ سال سے تقریبا 18 فیصد کم ہیں، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق پاکستان کو سویابین کی پیداوار پر مناسب غور کرنا چاہیے کیونکہ ملک کا سویابین کی درآمدات پر زیادہ انحصار ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے میں آئل سیڈ سائنٹیسٹ ‘ حافظ سعد بن مصطفی نے کہا کہ ہم درآمدات پر منحصر ہیں،یہ بہت مہنگا ہے جس کی وجہ سے فیڈ، تیل وغیرہ کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسے اپنے ملک میں کاشت کی ہماری ضرورت ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں کپاس کے علاوہ تمام فصلیں نان جی ایم او ہیں۔ زیادہ تر غیر ملکی اقسام جو ہم درآمد کرتے ہیں وہ ہلکے علاقوں اور جی ایم او کی ہیں۔ وہ نہ یہاں لگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں زندہ رہ سکتے ہیں۔
لہذا مقامی اقسام کے بیجوں کو کئی گنا بڑھایا جانا چاہیے اور ان ممکنہ شعبوں میں فروغ دیا جانا چاہیے جن کی نشاندہی ہم نے اپنی آزمائشوں اور اپنانے کے قابل مطالعہ سے کی ہے۔ حافظ نے کہا سویا بین زیادہ تر امریکہ، برازیل اور ارجنٹائن جیسے ممالک میں کاشت کی جاتی ہے جہاں معتدل آب و ہوا ہے، اس لیے پاکستان کو اپنی نان جی ایم او سویابین ویریٹیز تیار کرنے کی ضرورت ہے جو زیادہ درجہ حرارت میں اچھی کارکردگی دکھا سکے۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (UAF) کی سویا بین بریڈنگ لیب کے انچارج ڈاکٹر ظہیر احمد نے کہا کہ ہم اچھے معیار کے بیج پیدا نہیں کرتے، اور مختلف فصلوں میں بیج کی کل پیداوار بیس فیصد ہے یہ بہت بڑا خلا ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت ہم گندم، چاول، کپاس اور سبزیوں کے لیے بھی مختلف فصلوں کے لیے درآمد شدہ بیجوں پر انحصار کرتے ہیں اور یہی حال سویابین کا ہے۔ ہمیں اسے مقامی طور پر تیار کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد کے مطابق کسان کو مخصوص پلانٹر، ہارویسٹر اور تھریشر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مکینائزیشن بہترین طریقوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے ہم سویا بین کی پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں، اس طرح ہمیں کم محنت، کم وقت اور کم ذخیرہ کرنے کے وقت کی ضرورت ہے ۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق پاکستان میں سویا بین کی پیداوار کی تازہ ترین پیشرفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ظہیر احمد نے زور دیا کہ اب ان کی توجہ انٹرکراپنگ کے لیے مخصوص سویا بین کو فروغ دینے پر مرکوز ہے، جو کہ چین کی جانب سے اعلی پیداوار دینے والی ٹیکنالوجی ہے۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق ڈاکٹر ظہیر احمد نے کہا کہ بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد علی رضا جنہوں نے حال ہی میں چین کی سیچوان زرعی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے، ان کو مختلف فصلوں کے ساتھ انٹرکراپنگ بالخصوص سویا بین کی انٹرکراپنگ میں مہارت حاصل ہے اور انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں موثر انداز میں متعارف کرایا ہے۔