قرآن میں تصورِ تحقیق

سرگودھا یونیورسٹی میں قرآن میں تصورِ تحقیق” کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار

سرگودھا (لاہورنامہ)سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے زیر اہتمام ”قرآن میں تصورِ تحقیق” کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا و طالبات کو یہ بتایا گیا کہ قرآن تحقیق کے حوالے سے جو رہنمائی فراہم کرتا ہے اس کی روشنی میں ہم کیسے اسلام اور عصر حاضر کو ساتھ لے کر زندگی کے امور سر انجام دے سکتے ہیں۔

سیمینار میں نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک تھاٹ اینڈ کلچر سے وابستہ سکالر ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈائریکٹر نون بزنس سکول پروفیسر ڈاکٹر غلام علی بھٹی، چیئرپرسن شعبہ علوم اسلامیہ ڈاکٹر فرحت نسیم علوی، ڈاکٹر فیروز الدین شاہ سمیت اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مستفیض احمد علوی نے کہا کہ تحقیق صرف تلاش کا عمل نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود نتائج پر نظر ثانی کرتے ہوئے غور فکر کرنے کا نام ہے۔

یہ معلوم سے نا معلوم تک کا ایک سفر ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق کی بنیاد رکھنے میں قرآن مجید کی آیات کا اہم کردار ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا“۔

اس آیت پر جب ہم ریسرچ کرتے ہیں تو مزید سائنسی حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں کہ کس طرح سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ قرآن کی آیات ہی ہماری زندگی میں تحقیق کی بنیاد بنتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن تحقیق کے لیے چار زرائع علم کی نشاندہی کرتا ہے جن میں حواس، عقل، وجدان اور وحی شامل ہیں جن کے ذریعے ہم تحقیق کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق دلیل کے ساتھ تسخیر کائنات کے لیے ہونی چاہیے کیونکہ یہ انسان کو ایک سمت عطاء کرتی ہے جو اسے فرش سے اٹھا کر عرش معلی تک لے جاتی ہے۔

ڈاکٹر فرحت نسیم علوی نے کہا کہ آج سے پہلے جن مسائل نے ہمارے معاشرے میں جنم نہیں لیا تھا اب نئی صورت میں ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں جن کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر ہمیں حل معلوم نہیں ہوتا جس کی مثال سائبر کرائم ہیں۔

لوگوں کے بینک اکاؤنٹس ہیک ہوجاتے ہیں،ذاتی اور نامناسب تصاویر شوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسلام اس حوالے سے کیا احکامات دیتا ہے۔ قرآن و حدیث سے معاملات زندگی سے متعلق رہنمائی تو مل گئی مگر ہم نے اسے ابھی تک قانونی شکل نہیں دی۔ انہوں نے بتایا کہ آج بھی انگریز دور سے چلا آنے والا پولیس کا قانون بغیر کسی ترمیم کے اسی شکل میں نافذ ہے۔

سرمایہ کاری اور بینکوں کے نظام کو اسلامی شکل میں مزید ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اور انہی پہلوؤں پر ہمارے سکالرز کو تحقیق کرنی چاہیے۔ سیمینار کے انعقاد کا مقصد بھی یہی تھا کہ طلبہ کو بتایا جائے کہ آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن مجید پر تحقیق کریں۔

سیمینار سے ڈاکٹر غلام علی بھٹی اور ڈاکٹر فیروز الدین شاہ نے بھی خطاب کیا جبکہ سیمینار کے اختتام پرڈاکٹر غلام علی بھٹی اور ڈاکٹر فرحت نسیم نے مہمان خصوصی ڈاکٹر مستفیض احمد علوی کو اعزازی شیلڈپیش کی۔