ٹو کیو (لاہورنامہ)دو سال قبل جاپانی حکومت نے 2023 کے موسم بہار میں فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کےجوہری آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کا اعلان کیا تھا ۔اس اقدام پر اندرون و بیرون ملک بڑے پیمانے پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور شدید مخالفت کی گئی تھی۔
جولائی 2022 میں جاپان نے باضابطہ طور پر جوہری آلودہ پانی کو سمندر میں چھوڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی جبکہ آئی اے ای اے کا ٹیکنیکل ورکنگ گروپ جاپان میں بدستورجائزہ لے رہا تھا۔
رواں سال جنوری میں جاپان نے یکطرفہ طور پر اعلان کیا کہ وہ ” موسم بہار اور موسم گرما میں” سمندر میں آلودہ پانی خارج کر دے گا۔ اس کے بعد سے ، جاپان نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں متعلقہ تنصیبات کی تعمیر کو مسلسل تیز کردیا ہے۔
یہ اقدامات نہ صرف متعلقہ بین الاقوامی اداروں کے اختیار کو کمزور کرتے ہیں بلکہ جاپانی عوام اور بین الاقوامی برادری کے لئے بھی انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
کوریا انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر انرجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین تحقیقی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر جاپان آلودہ پانی سمندر میں خارج کرتا ہے تو پانی میں موجود تابکار عنصر ٹرائٹیم تیزی سے مشرق کی جانب بڑھے گا اور 10 سال میں پورے شمالی بحر الکاہل میں پھیل جائے گا۔
آئی اے ای اے کی تکنیکی ٹیم نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں بھی یہ بتایا تھا کہ جاپان کا منصوبہ آئی اے ای اےکے حفاظتی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
دوسری جانب بحرالکاہل جزائر فورم کے خصوصی رہنماؤں کے حالیہ غیر رسمی اجلاس میں مختلف ممالک کے رہنماؤں نے ایک بار پھر جاپان کی جانب سے سمندر میں آلودگی کے اخراج کے منصوبے کی شدید مخالفت کی۔ ان کا ماننا ہے کہ جاپان کے اس منصوبے کا تعلق محض ایک ملک "جاپان” سے نہیں ہے بلکہ اس سےبحرالکاہل جزائر کے ممالک سمیت پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوں گے۔
سمندر وہ بنیاد ہیں جن پر دنیا کے تمام ممالک اپنی بقا اور ترقی کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے رکن کی حیثیت سے ، جاپان پر سمندری ماحول کے تحفظ کی ذمہ داریاں لاگو ہیں۔ درحقیقت، جاپانی حکومت کے نزدیک اس طریقے سے آلودہ پانی کا اخراج سب سے سستا ہے .
لیکن یہ کیسے متعلقہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور سمندری ماحولیات اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے، جاپان نے اس پر غور نہیں کیا ہے. یہ رویہ جاپانی حکومت کی انتہائی خود غرضی کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگر جاپان سمندر میں آلودگی پھیلانے پر بضد ہے تو بین الاقوامی برادری کو مشترکہ اقدامات کرنے چاہئیں اور قانونی طریقوں سے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔