بیجنگ (لاہورنامہ)امریکہ انسانی حقوق کے معاملات پر دوسرے ممالک پر من مانے الزامات عائد کرتا ہے لیکن اپنے ہاں انسانی حقوق کے معاملات پر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔
سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے امریکہ دنیا میں کووڈ۔19 سے متاثرہ کیسز اور اموات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ، لوگوں کی زندگی اور صحت کے حق کو سنجیدگی سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں گن وائلنس واقعات انسانی حقوق کے بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
منظم نسلی امتیاز نے اقلیتوں کے خلاف حملوں کو ہوا دی ہے۔ جھوٹی جمہوریت لوگوں کے سیاسی حقوق کو پامال کر رہی ہے۔ پرتشدد قانون کے نفاز سے تارکین وطن پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ امریکہ میں تحفظ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی محض کچھ ہی مثالیں ہیں ۔
چینی وزیر خارجہ چھن گانگ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 52 ویں اجلاس کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر نشاندہی کی کہ ” ایسے چند ممالک کی مخالفت کی جائے جو اپنے ہاں انسانی حقوق کے سنگین مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں اور حل کرنے سے قاصر ہیں.
لیکن ہر جگہ وہ انسانی حقوق کے "چیمپئن ” کا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے ممالک پر من مانے الزامات عائد کرتے ہیں ۔ "ہم خلوص دل سے امریکی حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ "منصف” ہونے کا دکھاوا نہ کرے، دوسرے ممالک پر انسانی حقوق کے تحفظ کا الزام لگانے کے مذموم مقاصد کے تحت جھوٹ نہ باندھے، اور اپنے ہاں معاشی مسائل اور انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ خیال رکھے ۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کے نام پر بین الاقوامی قوانین، بین الاقوامی نظم و نسق اور بین الاقوامی نظام کو پامال اور کمزور نہیں کرنا چاہیے، دنیا کے مختلف حصوں میں افراتفری اور یہاں تک کہ انسانی آفات بھی پیدا نہیں کرنی چاہئیں تاکہ انسانیت کو ایک صاف و شفاف دنیا میسر آ سکے ۔