بیجنگ(لاہورنامہ)حالیہ برسوں میں امریکہ کا سالانہ اوسط فوجی بجٹ 700 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ رہا ، جو کہ دنیا کے کل فوجی اخراجات کا 40 فیصد اور 15 ممالک کے مجموعی اخراجات سے بھی زیادہ بنتا ہے۔
مالی سال 2024 کے لیے دفاعی بجٹ کی درخواست 886 بلین امریکی ڈالر ہے جو بدستور دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگا ۔ دنیا کی نمبر ایک طاقت کے طور پر، امریکہ حالیہ برسوں میں فوجی اخراجات کو بڑھاتا رہا، بحرانوں کے لیے اضطراب کو بڑھاتا رہا، تصادم اور محاذ آرائی پیدا کرتا رہا اور عالمی امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ۔
24 اپریل کواسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے جاری کردہ عالمی فوجی اخراجات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں کل عالمی فوجی اخراجات میں حقیقی معنوں میں 3.7 فیصد اضافہ ہوا، جو 2,240 بلین امریکی ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچا.
فوجی اخراجات میں اضافہ عالمی سلامتی کی سنگین صورتحال اور اس سے متعلق خدشات کو واضح کرتا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے اکسانے پر روس اور یوکرین کے تعلقات تیزی سے بگڑ ے اور تنازعات نے جنم لیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے عوام کو شدید نقصان پہنچا ۔
امریکی اتحادیوں کو ایک ہی کشتی میں گھسیٹا گیا ہے اور انہیں مجبوراً فوجی اخراجات میں اضافہ جاری رکھنا پڑا۔جب کہ دوسری طرف امریکی ہتھیاروں کے ڈیلرز نے بہت پیسہ کمایا اور توانائی کمپنیوں کو بھی اپنے اتحادیوں سے دولت کمانے کا موقع ملا ہے۔
اس وقت امریکہ کے بیرون ملک تقریباً 800 فوجی اڈے ہیں اور 159 ممالک میں 173,000 فوجی تعینات ہیں۔ مغربی دانشوروں نے کتاب ” America Invades ” میں نشاندہی کی ہے کہ اب تک اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ 190 سے زائد ممالک میں سے صرف 3 ممالک ہی ایسے ہیں جنہوں نے امریکہ کے ساتھ جنگیں نہیں لڑیں اور نہ ہی انہیں امریکہ کی فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا ۔
امریکہ کی تاریخ میں عراق، افغانستان اور شام سمیت دیگر ممالک میں امریکی فوجی مداخلت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ یہ فوجی کارروائیاں یا تو جمہوریت کے نام پر کی گئیں یا انسانی حقوق کی آڑ میں لیکن جنگ کا نقصان اٹھانے والے ہمیشہ ان ممالک کے عوام رہے جہاں مداخلت کی گئی ۔
جمہوریت کے نام پر امریکی یلغار کا عمل انسانی حقوق کے نام پر دوسرے ممالک کے عوام کو عام زندگی کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے اور لاتعداد معصوم جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں ۔ تجزیہ کار بہت پہلے ہی اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ نام نہاد "جمہوریت اور انسانی حقوق کا دفاع” امریکہ کے لیے محض جنگ کے آغاز کا ایک بہانہ ہے، اور اس کا اصل مقصد دنیا میں تیل کے وسائل کو لوٹنا، دوسرے ممالک کی ترقی کو روکنا ، اور اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔
تاریخ انسانی میں امن اور ترقی ہمیشہ ترقی کا مرکزی دھار ا اور عوام کی مشترکہ امنگ رہی ہے۔ ایک پرامن اور محفوظ ماحول میں ہی لوگوں کی خوشگوار زندگی ممکن ہے۔ دنیا کی نمبر ایک اقتصادی اور فوجی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کو اس حوالے سے زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیئے ۔
اختلافات اور اختلاف رائے قبول کر کے ممالک کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کی جانی چاہیئے ۔ زیرو سم گیمز کی صورت میں حریف کو شکت دینے کے غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے جیت جیت کی سوچ کے ساتھ مشترکہ ترقی کو فروغ دینا چاہیئے ۔
بحرانوں اور محاذ آرائیوں کو بڑھانے کی بجائے یقینی استحکام لانے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔امریکہ کو ، جو خود کو "جمہوریت کا لائٹ ہاؤس” قرار دیتا ہے، دنیا کے لوگوں میں امن اور ترقی لانے کے لئے ایک بڑی طاقت بننا چاہیئے کیونکہ امن اور ترقی انسانیت کی سب سے بنیادی ضروریات ہیں۔