بیجنگ (لاہورنامہ) جو لوگ چین امریکہ تعلقات پر نظر رکھتے ہیں، انہوں نے اس بات کا نوٹس لیا ہوگا کہ رواں سال کے اوائل میں ائیرشپ واقعے کے بعد سے چین اور امریکہ کے درمیان اعلی ٰ سطحی تبادلے خلل کا شکار ہیں۔
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، وزیر خزانہ یلین، قومی سلامتی کے مشیر سلیوان، وزیر تجارت ریمنڈو اور وزیر دفاع آسٹن سمیت کئی سینئر امریکی حکام نے چین کے ساتھ بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے، لیکن چین کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ چین اور امریکہ کے تعلقات کو واقعی ایک بار پھر سرد مہری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
8 مئی کو چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ چھن گانگ سے بیجنگ میں چین میں امریکی سفیر برنس کی ملاقات ہوئی۔ وزیر خارجہ بننے کے بعد چین میں کسی امریکی سفیر کے ساتھ چھن گانگ کی یہ پہلی ملاقات ہے اور یہ امریکہ کی جانب سے حالیہ بیانات کے جواب میں چین کا ردعمل بھی ہے۔
چھن گانگ نے دوٹوک الفاظ میں امریکی فریق کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرد تعلقات کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے قول و فعل میں متعدد تضادات کے باعث چین امریکہ تعلقات میں مشکل سے حاصل شدہ مثبت رجحان کو نقصان پہنچا ہے اور فریقین کے درمیان طے شدہ بات چیت اور تعاون کے ایجنڈے متاثر ہوئے ہیں۔
چین کے ساتھ بات چیت کی بحالی کا حل کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ امریکہ کوسنجیدگی کے ساتھ اپنی غلطیوں پر غورکرتے ہوئے چین کے ساتھ ملکر کوشش کرنی ہوگی۔ اس حوالے سے چھن گانگ نے برنس سے ملاقات کے دوران چار مطالبات کئے جو تمام حقائق پر مبنی ہیں۔
سب سے پہلے، امریکہ کو چین کے بارے میں اپنی تفہیم کو درست کرکے اپنے قول و فعل میں یکسانیت لانا ہوگی. چین ہمیشہ گرم جوشی اور مہمان نوازی کا حامل ملک رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ رواں سال چین کا دورہ کرنے والی غیر ملکی شخصیات کا سلسلہ جاری ہے۔
چین نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دی ہے اور بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد چین اور امریکہ کےصدور نے بھی آن لائن اور آف لائن رابطے برقرار رکھے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ سال نومبر میں صدر شی جن پھنگ اور صدر بائیڈن نے بالی میں کامیاب ملاقات کی اور اہم اتفاق رائے طے پایا ۔
لیکن جوں جوں چین اور امریکہ کےصدور اتفاق رائے تک پہنچے، امریکہ نے اپنا وعدہ توڑ دیا ہے۔ فروری میں بلاوجہ ایئرشپ واقعہ پیدا کیا گیا۔ جاپان، جنوبی کوریا اور نیدرلینڈز کے ساتھ چین کی سیمی کنڈکٹرسیکٹر کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ تائیوان انتظامیہ کی سربراہ چائی این ون کی امریکی کانگریس کے اسپیکر سے ملاقات نہیں روکی گئی۔ چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کے لئے بلز کی منظوری دی گئی۔
دوسرا، چین کی باٹم لائن کا احترام کرتے ہوئے امور تائیوان کو صحیح طریقے سے سنبھالنا چاہیے۔ امریکی کانگریس کے اسپیکر کی جانب سے چائی این ون کے ساتھ مذکورہ بالا ملاقات کے علاوہ، امریکہ نے حال ہی میں تائیوان کو اسلحے کی فروخت کا اعلان کیا، جس نے چین اور امریکہ کے درمیان تین مشترکہ اعلامیوں، بالخصوص "17 اگست” اعلامیے کی شقوں کی سنگین خلاف ورزی کی۔
25 امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے وفد نے تائیوان کا دورہ کیا اور "تائیوان میں ڈرونز کی پیداوار” پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکہ نے چین مخالف متعدد بلز بھی منظور کیے ہیں جن میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر چین نے ملک کی وحدت کے لئے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ میں چین کے اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔
تیسرا، دوطرفہ تعلقات میں غیر متوقع واقعات سے نمٹنے کے لئے پیشہ ورانہ اور عملی رویہ کے ساتھ ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ہوگا۔ ‘ائیرشپ کا واقعہ’ غیرمتوقع واقعے کے طور پر مکمل طور پر روکا جا سکتا تھا، لیکن اس سے نمٹنے میں امریکہ نے سیاسی کھیل کھیلا۔
چوتھا، باہمی احترام، برابری اور باہمی مفادات کی بنیاد پر بات چیت اور تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ باہمی احترام اور باہمی مفادات تعاون کے بنیادی اصول ہیں۔ اپنے بھاری مالیاتی خسارے اور افراط زر کی بلند شرح کا سامنا کرتے ہوئے امریکہ چین کی مدد تو چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ چین کن کن شعبوں کو ترقی نہیں دے سکتا، اور اصرار کرتا ہے کہ چین امریکی بوئنگ کمپنی کے طیارے خریدے.
بات چیت کے لئے صحیح ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور تعاون کو بھی مناسب رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکہ کا "مدد کرنے والوں کو نقصان پہنچانے ” کا یہ رویہ دانش مند حلقوں کے لئے ناقابل قبول ہوگا۔
امریکی نائب صدر نے ان دنوں زیمبیا کا دورہ کیا۔ ان کا طیارہ چین کے تعمیر کردہ ہوائی اڈے پر اترا اور ان کا قافلہ چین کی تعمیر کردہ سڑک پر سفر کر رہا تھا۔ وہ چین کے تعمیر کردہ ہوٹل میں ٹھہریں اور چین کے تعمیر کردہ کانفرنس روم میں بیٹھ کر زیمبیا سے کہا کہ وہ چین کے ساتھ تعاون نہ کرے۔
مزے کی بات یہ تھی کہ زیمبیا کے صدر نے براہ راست جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس عمارت میں آپ امریکیوں نے زیمبیا میں تقریبات منعقد کیں وہ چین کی جانب سے عطیہ کی گئی ہے، لیکن آپ مجھے یہ بتانے آئی ہیں کہ چین کے ساتھ تعاون نہیں کرنا ہے۔ کیا آپ یہاں اپنی تضحیک کے لیے آئی ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ چین افریقہ کا سچا دوست ہے اور افریقی عوام کی خلوص دل سے مدد کرتا ہے۔
لہٰذا امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ چین کو ایسی بات چیت کی ضرورت نہیں ہے جس میں خلوص اور احترام کا فقدان ہو۔