چین نے حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی کی ہے، چینی میڈ یا

بیجنگ (لاہورنامہ)کچھ عرصہ قبل امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور نے ایک ایکٹ منظور کیا، جس میں چین کی ترقی پذیر ملک کی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چین ترقی پذیر ملک ہے یا نہیں اس کا فیصلہ امریکہ کے کہنے پر نہیں ہو سکتا ۔ چین کی ترقی پذیر ملک کی حیثیت کو منسوخ کرنے کے مطالبے میں امریکہ کا اصل مقصد چین کی ترقی کو روکنا ، چین اور ترقی پذیر ممالک کے مابین اختلافات کا بیج بونا اور ترقی پذیر ممالک کے اجتماعی عروج کی رفتار کو سست کرنا ہے۔ لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

یہ حقیقت ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں تیزی سے ترقی کی ہے اور مجموعی معاشی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ تاہم ،مجموعی معاشی حجم اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا ہے کہ کوئی ملک ترقی یافتہ ہے یا نہیں۔ اگر جی ڈی پی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو چین، جسے جدید تاریخ میں "غریب اور کمزور” جانا جاتا تھا ،قدیم تاریخ میں ایک طاقتور معیشت سمجھی جاتی تھی۔

مشہور برطانوی معاشی شماریات کے ماہر اینگس میڈیسن کے مطابق 1700 سے 1820 تک چین کا جی ڈی پی نہ صرف دنیا میں پہلے نمبر پر رہی بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ 32.9 فیصد کے تناسب تک بھی پہنچی۔ میڈیسن کے اندازوں کے مطابق چین کی معاشی ترقی کی موجودہ رفتار کے مطابق 2030 تک عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ بڑھ کر 23 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جو 200 سال پہلے کے برابر ہو گا ۔

دوسری طرف، غیر متوازن صنعتی ترقی، غیر متوازن علاقائی ترقی، شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان آمدنی کے فرق جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں. مثال کے طور پر چین کے معاشی لحاظ سے بڑے صوبے زے جیانگ میں بھی دیہی علاقوں کا ماحول قابل اطمینان نہیں تھا۔پھر تقریبا چالیس ہزار دیہات میں سے دس ہزار کو جامع اصلاحات کے لئے منتخب کیا گیا ۔

گزشتہ 20 سالوں میں زے جیانگ نے دیہات میں کچرے کے نظام، سیوریج اور بیت الخلاء کی ضرورت جیسے شعبوں میں انقلابی اقدامات کو فروغ دیا اور حیاتیاتی ماحول کو بہتر بنایا ہے. گزشتہ 20 سالوں میں، زے جیانگ کے ان دیہات میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی بہت سے دیہات ایسے ہیں جن میں رہائش ،حیاتیاتی ماحول اور معیشت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے.

بین الاقوامی سطح پر چین ہمیشہ سے ایک ترقی پذیر ملک رہا ہے۔ طویل عرصے سے چین اور ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد نے قومی آزادی کی تحریک میں شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے اور قومی ترقی کو فروغ دینے کے عمل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ گزشتہ صدی کی 60 کی دہائی میں ، چین نے اپنی معاشی کمزوری کے باوجود بھی افریقی بھائیوں کے لیے ریلوے کی تعمیر میں مدد فراہم کی۔

چین کی "جون چھاؤ” ٹیکنالوجی دنیا بھر کے 106 ممالک اور خطوں میں پھیل چکی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں ‘ یہ گھاس خوشحالی کی علامت بن چکی ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کا مقصد بھی ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی مشترکہ فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا کو یکطرفہ اور بالادستی جیسے خطرات کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک نے حقیقی کثیر الجہتی کی پاسداری اور اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط پر مبنی بین الاقوامی انتظام و انصرام کی حفاظت کے لئے انصاف کی آواز بلند کرنے کے لئے ہاتھ ملایا ہے۔

ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی سطح پر سامعین کی حیثیت سے اسٹیج کے مرکز میں داخل ہورہے ہیں، پسماندگی سے فعال قیادت کا سفر طے کرنے لگے ہیں جس سے بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت، عالمی کثیر قطبیت اور اقتصادی عالمگیریت کے تاریخی عمل نے مؤثر طریقے سے فروغ پایا ہے۔

1964 میں اقوام متحدہ کے یو این سی ٹی اے ڈی کے پہلے اجلاس میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے وہ ممالک ،جنہوں نےدوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی حاصل کی اور آزاد ترقی کے راستے کا انتخاب کیا ،انہیں "ترقی پذیر ممالک” قرار دیا گیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے عوامی جمہوریہ چین کو اقوام متحدہ میں اپنی قانونی نشست کی بحالی کی 50 ویں سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ چین اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک طاقتور آواز بن گیا ہے۔

چین کی ترقی پذیر ملک کی حیثیت امریکہ کی مرضی سے تبدیل نہیں ہوگی،نہ ہی ترقی پذیر ممالک کے ساتھ چین کی گہری دوستی میں کوئی کمی آئے گی اور بے شک ترقی پذیر ممالک کی مشترکہ ترقی کا عمل بھی امریکہ کی مرضی سے تاخیر کا شکار نہیں ہوگا۔