عمر عطا بندیال

نیب ترامیم کیس پر دلائل مکمل، فیصلہ جلد سنائیں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد(لاہورنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کیس پر دلائل مکمل ہوگئے ، جلد فیصلہ سنائے جانے کاامکان ہے جبکہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیے کہ ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاو کس جانب ہے۔

پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔عدالت عظمی کے تین رکن بینچ میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں، ان کا جواب جمع کرادوں گا۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟

نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاکس جانب ہے، مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدمات دوسرے فورمزکو بھجوائے جائیں؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کے پاس مقدمات دوسرے اداروں کوبھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیارنہیں، اس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہے مقدمات نیب سے ختم ہوکرملزمان گھرچلے جائیں، نیب کے دفتر میں قتل ہوگا توکیا معاملہ متعلقہ فورم پرنہیں جائے گا؟

مقدمات دوسرے فورمزکوبھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔جسٹس منصور نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے ججزکو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذرہوں، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیرقانونی منتقلی ہو،کارروائی ہونی چاہیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

دوران سماعت جسٹس منصور نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے،اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پرسزائیں موجود ہیں.

جسٹس منصور نے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اورعوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، کیا کرپٹ آرمی افسرکا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسرفوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہوتونیب قانون کی زد میں آتا ہے۔

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کوکہہ سکتی ہے کہ آپ نے چالاکی اوربدنیتی پرمبنی قانون بنایا؟ سپریم کورٹ کے پاس اگرپارلیمنٹ کی قانون سازی چھیڑنے کا اختیار نہیں تواس کے ساتھ چلنا ہوگا، اس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ پارلیمنٹ کو سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہے.

پارلیمنٹ ماضی سے اطلاق کا قانون بناکرجرم ختم نہیں کرسکتی، ایسے تو 1985 میں سزا پانے والا مجرم آکرکہے گا میری سزا نہیں رہی اور دوبارہ ٹرائل کرو۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون کو واضح ہونا چاہیے تھا، جب قانون واضح نہ ہوتو اس کا حل کیا ہوتا ہے؟

کیا مبہم قانون قائم رہ سکتا ہے؟ اس پر جسٹس منصور نے کہا کہ چیف جسٹس کے سوال کو آگے بڑھاں توکیا سپریم کورٹ قوانین واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ تو بہت سپریم ہے.

اگرپارلیمنٹ کو قوانین پر دوبارہ غورکی درخواست کریں توبیچ کے وقت میں کیا ہوگا؟ اگر عدالت کو قانون میں سقم مل جائے توکیا پارلیمنٹ کو واپس بھیجیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔

بعد ازاں درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث اور وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلیے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کا فیصلہ جلد سنائیں گے اور فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کریں گے البتہ تمام فریقین کا شکریہ کہ انہوں نے معاونت کی۔