بیجنگ (لاہورنامہ) کچھ دن پہلے، میری 12 سالہ بیٹی پہلی بار بس کے ذریعے خود شاپنگ مال گئی ،وہاں اس نے کیک اور چائے خریدی ۔ کیک خریدنے سے پہلے اس نے موبائل ایپ پر ایک کوپن لیا ۔ اس کے بعد، وہ کپڑے کی دکان پر گئی، وہاں اس کا سائز نہیں تھا، اس لیے اس نے آن لائن آرڈر دیا اور کپڑا براہ راست گھر پہنچا دیاگیا۔
باہر جانے سے پہلے، اس نے 100 یوآن کی نقد رقم بھی لی تھی، جو بالکل انچھوئی ہی واپس آئی، کیونکہ بس ٹکٹ، چائے ، کیک، کپڑے اور ان کی ایکسپریس ڈیلیوری وغیرہ ، تمام اخراجات کے لیے صرف ایک موبائل فون کی ضرورت ہوتی ہے۔
موبائل پیمنٹ مقبول ہونے سے پہلے کی کہانی کچھ یوں ہوتی تھی کہ آپ بس میں سوار ہو ئے، لیکن کنڈیکٹر نہیں تھا۔ بس ٹکٹ کے لیے سکے یا نوٹ، کرائے کے لیے لگے ڈبے میں ڈال دیئے جاتے تھے اور کوئی ریزگاری واپس نہیں مل سکتی تھا۔
اگر آپ کی جیب میں ریزگاری نہیں تو قریبی دکان سے کچھ خریدنا پڑتا تھا۔ اکثر موقع پر ، قریب ترین کوئی دکان نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت، آپ کو بس میں ریزگاری کے لیے دیگر مسافروں سے پوچھنا پڑتا تھا کہ”کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے؟”
موبائل ادائیگی کا آغاز مغربی ممالک سے ہوا، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر یہ چین ہی میں لاگو کیا گیا ہے. اس کی آسانی اور سہولت کی وجہ سے، آن لائن شاپنگ سے لے کر ٹیکسی کے پلیٹ فارم تک، بس ٹکٹ سے لے کر شیئرڈ سائیکلز تک، چینی لوگوں نے بہت جلد ہی موبائل ادائیگی کا طریقہ کاراپنا لیا ہے۔
نہ صرف مقامی لوگ بلکہ چین آنے والے بہت سے غیر ملکی بھی موبائل پیمنٹ سہولت کی بے حد تعریف کرتے ہیں۔ چند روز قبل کارلو نامی ایک غیرملکی چین آیا تھا، اس نے بتایا کہ جب وہ شنگھائی پہنچا تو اس نے اے ٹی ایم سے 300 یوآن رقم نکالی، لیکن اسے یہ رقم استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،چند مرتبہ اس نے کریڈٹ کارڈ استعمال کیا اور باقی وقت میں زیادہ تر علی پے کا استعمال کیا۔
سی ایم جی کے ایک رپورٹر سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ "ایک بار جب آپ موبائل سے ادائیگی کرنے کا طریقہ سیکھ لیں تو پھر یہ بہت آسان ہے۔”
یہ سننے کے بعد، آپ کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر میں موبائل سے ادائیگی کرنے کا طریقہ نہیں جانتا تو کیا میرے لیے چین میں مشکلات ہوں گی ؟”
فکر نہ کریں کیونکہ اب بھی ایسے بہت سے چینی لوگ ہیں جو روایتی طریقے سے ادائیگی کرنے کے عادی ہیں، خاص طور پر بزرگ۔ مثلاً میری والدہ 70 سال کی ہیں، وہ موبائل فون سے ادائیگی کرنا پسند نہیں کرتی ہیں اور ہمیشہ اپنے بیگ میں نقد رقم رکھتی ہیں۔
وہ لوگ جو روایتی طریقوں کے عادی ہیں ان کے لیےادائیگی کا عمل آسان بنانے کے لیے چین میں کئی پالیسیز اور اقدامات پیش کیے گئے ہیں، اس لیے موبائل پیمنٹ کا طریقہ کار استعمال نہ کرنے سے زندگی کی بنیادی ضروریات بالکل متاثر نہیں ہوتیں۔
چین میں سرمایہ کاری ، کاروبار ، سفر یا تعلیم کی خاطر آنے والے غیر ملکیوں کے لیے چین نے خصوصی طور پر ایک پیمنٹ گائیڈ جاری کی ہے، جس میں ادائیگی کی مختلف خدمات حاصل کرنے اور استعمال کرنے کے طریقوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ جو لوگ موبائل ادائیگی کرنے کے خواہشمند ہیں، ان کے لیے چین بیرون ملک بینک کارڈز کے ذریعے موبائل ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
جو لوگ موبائل ادائیگی کرنے کے خواہشمند نہیں ہیں، ان کے لیے چین نے کریڈٹ کارڈ کے ٹرمینلز اور غیر ملکی کرنسی ایکسچینج کاؤنٹرز میں اضافہ کیا ہے، اس کے علاوہ اے ٹی ایم پر 10 یوآن جتنی کم سے کم نقدی فراہم کی ہے ۔ ان اقدامات سے یہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ غیر ملکیوں کو چین میں قیام کے دوران ادائیگی میں کسی قسم کی مشکلات درپیش نہ ہوں ۔
"علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جاناپڑے ۔” جدید معاشرے میں، آسان نقل و حمل اور ترقی یافتہ نیٹ ورکس نے مختلف ثقافتوں کے درمیان فاصلے کو بہت کم کر دیا ہے۔ آپ سوشل نیٹ ورکس پر چین دیکھ سکتے ہیں، خبروں میں چین کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں، اور اپنے دوست کے منہ سے چین کے بارے میں سن سکتے ہیں۔
لیکن یہ وہ چین نہیں ہے جسے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو بذاتِ خود چین کے مشہور پہاڑوں اور دریاؤں تک جانا ہوگا، چین کی گلیوں میں گھومنا ہوگا، چینیوں کے طرز زندگی کا خود تجربہ کرنا ہوگا اور اسی طرح آپ مختلف ثقافتوں کے درمیان فرق کو محسوس کر سکتے ہیں ،پھر آپ یہ جانیں گے کہ پاکستان میں پالک کو پنیر کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور چین میں پالک کا سوپ بنایا جاتا ہے یا اسے انڈوں کے ساتھ بھون کرپیش کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں چمبیلی کے پھولوں کا عرق یا تیل بنایا جا سکتا ہے اور چین میں چمیلی کے پھولوں کو چائے میں ڈال دیا جاتا ہے اور انہیں انڈوں کے ساتھ بھون کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔اسی طرح، چینی باشندوں کو پاکستان میں روپیہ استعمال کرنا پڑتا ہے، جبکہ پاکستانی دوست چین آنے پر موبائل ادائیگی کا تجربہ کر سکتے ہیں اور کریڈٹ کارڈز اور نقد رقم کا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔