بیجنگ (لاہورنامہ) اس سال مارچ سے فلپائن نے رین آئِی ریف سے ملحقہ پانیوں میں اشتعال انگیزی میں اضافہ کر دیا ہے۔
5 مارچ کو فلپائن کے دو سپلائی جہاز اور کوسٹ گارڈ کے دو بحری جہاز اپنے غیر قانونی ” گراونڈڈ ” جنگی جہاز کو تعمیراتی سامان اور رسد پہنچانے کے لیے رین آئی ریف سے ملحقہ پانیوں میں داخل ہوئے اور جان بوجھ کر چینی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں معمولی سکریپنگ ہوئی۔
اسی قسم کا ایک اور واقعہ اٹھارہ دن بعد پھر رونما ہوا ۔اس کے علاوہ ان دو غیر قانونی دراندازیوں کے درمیان، 21 مارچ کو فلپائن نے 34 فوجیوں کو چین کے انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کی تیئے شیئن ریف پر غیر قانونی طور پر اترنے کے لئے بھیجا۔
چینی کوسٹ گارڈ کی بروقت کارروائی کے تحت فلپائن کی تیئن شیئن ریف پر قبضہ کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔
فلپائن کی جانب سے حال ہی میں بحیرہ جنوبی چین میں بار بار ایسے واقعات پیدا کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ سب سے پہلے، وہ عالمی سطح پر ایک موضوع پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی برادری میں چین کے تشخص کو خراب کر کے چین کے جنوبی بحیرہ چین پر فلپائن کے غیر قانونی دعو ی پیش کیا جائے ۔
دوسرا یہ کہ اس سے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کو اچھالتے ہوئے امریکہ کو علاقائی معاملات میں مداخلت کا بہانہ فراہم کرنا ہے ۔اس کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فلپائن اپریل میں واشنگٹن میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کریں گے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کا معاملہ اس سمٹ میں مرکزی نقطہ ہوگا۔
اس وقت بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کی موجودہ کارروائیوں کا ایک اور مقصد بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے سربراہ اجلاس کے لیے مزید ‘مواد’ فراہم کرنا ہے۔
چند روز قبل فلپائن کے میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فلپائن میں امریکی سفیر کارلسن نے دعویٰ کیا تھا کہ خطے میں تنازعات پر قابو پانے میں امریکا اور فلپائن کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے کی ‘بڑی اہمیت’ ہے۔ لیکن امریکہ اور فلپائن کے اتحاد نے خطے میں استحکام پیدا کیا ہے یا افراتفری ، اس کا جواب بہت واضح ہے ۔