سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی پر ٹیکس سے متعلق عدالتی حکم کے تحت پنجاب حکومت کی پانی کے میٹر اور نگرانی کے کیمرے لگائے جانے سے متعلق تفصیلی رپورٹ آئندہ سماعت میں طلب کرلی۔
سپریم کورٹ میں زیرزمین پانی پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے پانی کے معیار کو معائنہ کرنے کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر احسن صدیقی کے ساتھ مکالمے میں کہا کہ آپ نے ہمارا حکم دیکھا ہے، ہم اس کا نفاذ چاہتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کی روشنی میں پانی ٹیکس پر کام شروع کیا جائے، یہ بنیادی حق اور رفاہ عامہ کا کام ہے۔
جس پر ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا کہ ہم نے چاروں صوبوں کو خطوط لکھے ہیں جبکہ چیف سیکریٹری پنجاب کے علاوہ کسی نے جواب نہیں دیا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ باقی تینوں صوبے اس حوالے سے 2 دن میں اپنے نمائندے نامزد کریں، ہم چاہتے ہیں کہ کمیٹی کے تمام ارکان مل کر کام کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سندھ حکومت نے ایک لیٹر زیر زمین پانی پر ایک روپیہ ٹیکس کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، وہ نوٹیفکیشن منرل واٹر کمپنیوں کے لیے تھا، کیا پیسے جمع ہونے شروع ہوئے ہیں۔
اس پر عدالت میں موجود صوبائی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز نے بتایا کہ باقی صوبوں نے بھی نوٹیفکیشن جاری کر دیئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کے تحت 30 دن کے اندر پانی کے میٹر لگنے تھے، حکومت پنجاب نے اب تک کتنے پانی کے میٹر اور نگرانی کیمرے لگائے ہیں، اس پر تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
احسن صدیقی نے بتایا کہ صنعتوں کے زیر زمین پانی کے استعمال پر پانی ٹیکس کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ لاہور میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل روزانہ 24 لاکھ لیٹر پانی استعمال کرتا ہے، ایل ڈی اے پانی ٹیکس کے حوالے سے تعاون نہیں کر رہی۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ صوبائی چیف سیکریٹریز کو ہمارے ساتھ تعاون کے احکامات جاری کیے جائیں۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ صنعتوں پر پانی ٹیکس کی بجائے اگر مصنوعات پر ڈیوٹی لگا دی جائے تو بہتر ہو سکتا ہے، اس سے صوبائی حکومتوں کو میٹر بھی نہیں لگانے پڑیں گے۔
اس پر ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا کہ مارچ کے آخر تک شوگر ملوں کے لیے فارمولا طے کریں گے۔
دوران سماعت عدالت میں موجود قرشی انڈسٹری کے وکیل نے تجویز دی کہ سیلز ٹیکس کی طرح پانی ٹیکس لگایا جائے۔
احسن صدیقی نے کہا کہ اگر مصنوعات پر ٹیکس لگائیں گے تو پانی کے ضیاع کا پتہ نہیں چلے گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے کہ میٹرنگ بھی لازمی ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ منرل واٹر اور مشروبات کے حوالے سے کام تو مکمل کر لیں۔
عدالت میں موجود ڈائریکٹر جنرل ماحولیات نے کہا کہ ہمیں منرل واٹر اور مشروبات کے حوالے سے ڈیٹا چاہیے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایسی صنعتیں جن کا خام مال پانی ہے ان کا ڈیٹا پہلے جمع ہونا چاہیے۔
اس پر ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا کہ ہم اپریل تک کام مکمل کر لیں گے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو اپریل تک وقت نہیں دینا چاہ رہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومتی اداروں کی کارکردگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے درمیان تعاون کا فقدان ہے اگلی تاریخ پر پانی ٹیکس جمع ہونے کی رپورٹ ملنی چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ توجہ منرل واٹر اور مشروبات کی صنعت پر دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ڈاکٹر احسن صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ بتائیں گے کہ پانی پر میٹر اور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگے ہیں کہ نہیں، پانی کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے لیب ہیں کہ نہیں؟ اس پر بھی آپ نے رپورٹ دینی ہے۔
اس پر ڈاکٹر احسن صدیقی نے کہا کہ 50 فیصد صنعتوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوا دیئے ہیں جس پر ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ صنعتوں کی لیب میں کام کرنے والے لوگ مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم نے پانی بچاتے بچاتے روزگار ختم نہیں کرنا، لیکن آگاہی تو پھیلانا چاہیے، پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنے چاہیں۔
دوران سماعت عدالت میں موجود وفاقی حکومت کے نمائندے نے کہا کہ صنعتوں کے کچھ معاملات پر تحفظات ہیں، اس پر احسن صدیقی نے کہا کہ صنعتوں کو زیادہ خرچے سے ہم بچائیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔