خادم حسین رضوی

اشتعال انگیز تقاریر کیس: خادم حسین رضوی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

لاہور (لاہور نامہ)لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی)نے اشتعال انگیز تقاریر اور احتجاجی مظاہروں میں سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی)کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت 26 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک کے جج ارشد حسین بھٹہ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی، اس دوران خادم حسین رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ کی عدالت میں پیشی کے پیش نظر سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔علاوہ ازیں مقدمے میں علامہ اعجاز اشرفی، علامہ فاروق الحسن، سید ظہیر الحسن شاہ اور شفقت جمیل سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے جبکہ ملزمان کی جانب سے وکیل طاہر منہاس اور ناصر منہاس بھی پیش ہوئے۔سماعت کے دوران خادم رضوی اور سابق رہنما پیر افضل قادری سمیت 26 ملزمان کو چالان کی نقل فراہم کی گئی۔بعد ازاں عدالت نے کیس کے گواہوں کو آئندہ سماعت کے لیے طلبی کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت ک آج بدھ تک ملتوی کردی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 13 نومبر کو کیس کی سماعت ہوگی اور روزانہ کی بنیاد پر کیس سننے پر فیصلہ ہوگا۔خیال رہے کہ 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت سے متعلق دیئے گئے فیصلے کے خلاف مذہبی جماعتوں، خاص طور پر تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں احتجاج اور دھرنے دیے گئے تھے اور ملک کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں کو بند کردیا گیا تھا۔مذکورہ احتجاج کے دوران ملک کے اعلی اداروں، ان کے سربراہان کے بارے میں نامناسب اور اشتعال انگیز گفتگو کی گئی تھی جبکہ مختلف مقامات پر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔بعد ازاں حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدے کے بعد یہ احتجاج اور دھرنے ختم کردیے گئے تھے لیکن کچھ عرصے بعد 23 نومبر 2018 کو ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی کو 30 روز کے لیے نظر بند کردیا گیا تھا جبکہ سیکڑوں کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف 3 دن کے احتجاج کے دوران ریاست مخالف تقاریر اور تشدد پر اکسانے کے لیے دہشت گردی اور بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ملزمان کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 290، 291، 353، 427، 186 اور 188 جبکہ سانڈ سسٹم پنجاب آرڈیننس 2015 کی دفعہ 6 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کو شامل کیا گیا تھا۔مقدمات کے بعد خادم رضوی کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا، جس میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی تھی، تاہم 22 جنوری 2019 کو انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔جس کے بعد مذکورہ کیس میں رواں برس مئی میں لاہور ہائیکورٹ نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی اور سابق رہنما پیر افضل قادری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا