کرپٹ افراد کو این آر او دینا ملک سے غداری ہو گی، وزیراعظم

بلوکی : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کرپٹ کو این آر او نہیں دیں گے، این آر او دینا ملک کے غداری ہو گی، ملک کو دیوالیہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، دو این آر او نے ملک کو تاریخی نقصان پہنچایا، مشرف نے اپنی کرسی بچانے کےلئے این آر او دیا،نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو این آر او دے کرمعاف کیا گیا،اسمبلی چلانے کےلئے جتنی کوشش کرنی تھی کرلی، کسی کرپٹ کو رعایت نہیں دیں گے، اسمبلیوں میں صرف شور مچایا جاتا ہے، نیب کیسز بھگتنے والے نیب کو طلب کررہے ہیں،تاریخ میں پہلی مرتبہ 5ماہ میں3وزراءنے استعفیٰ دیا ہے، موجودہ حکومت صحیح معنوں میں احتساب کرے گی، ننکانہ صاحب میں گرونانک یونیورسٹی بنائیں گے۔ وہ ہفتہ کو بلوکی میں وائلڈ پارک کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کررہے تھے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ این آر او کیا ہوتا ہے؟اس کا مطلب ہے کہ بڑے مجرموں کو معاف کر دو، انہوں نے کہا کہ این آر او نے ملک کو تاریخی نقصان پہنچایا، ملک مقروض ہونے کی وجہ دو این آر اوز ہیں، جو مشرف نے نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو دیئے،حدیبیہ پیپرز مل میں اسحاق ڈار نے بتا دیا تھا کہ نواز شریف نے پیسہ کہاں سے لیا اور کہاں لے گیا،این آر او کے ذریعے انہیں باہر جانے دیا گیا جس میں امریکہ کا دباﺅ بھی شامل تھا،دوسری جانب قومی خزانے سے آصف زرداری کے سوئس بینک اکاﺅنٹس پر تحقیقات کےلئے دو ارب روپے خرچ ہوئے سرے محل پر حکومت کیس جیت گئی لیکن امریکہ کے بیچ میں پڑنے کی وجہ سے این آر او ہوا اور سرے محل اور پیسے بھی رکھ لئے گئے، سوئٹزرلینڈ کے دو ارب خرچ ہونے والی رقم کو بھی چھوڑ دیا گیا، ان دو این آر او کی وجہ سے طاقتور لوگوں نے سمجھا کہ جتنی مرضی کرپشن کرلیں کوئی پوچھنے والا نہیں،2002سے 2018تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے حکومت کی اور ملک کو 30ہزار ارب روپے کا مقروض کرگئے،اگر قرضے لیتے رہے تو خسارہ بڑھے گا، مشکلات اور مہنگائی بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر جب میں ان کی شکلیں دیکھتا ہوں یہ لوگ کس منہ سے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے پانچ ماہ میں ٹھیک نہیں کیا،گھر کو کوئی اگر مقروض کر کے چھوڑ دے یا کوئی فیکٹری قرضوں تلے دب جائے تو وہ کیسے ٹھیک ہو گی،جو بھی سوچ رہا ہے کہ حکومت این آر او دے گی وہ ملک کے ساتھ غداری کرے گا، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے کسی کو نہیں چھوڑنا،جس نے کرپشن کی اسے نہیں چھوڑیں گے،یہ لوگ اسمبلی میں شور مچا رہے ہیں، ہم نے پوری کوشش کی کہ اسمبلی ٹھیک چل جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ بندہ جیل سے آئے اور پی اے سی کا چیئرمین بن جائے،جتنی کوشش کرنی تھی کرلی،اب کوئی کسی قسم کی رعایت نہیں ہو گی،کرپٹ آدمی کو نہیں چھوڑیں گے،ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ پانچ ماہ میں کسی حکومت کے تین وزیر مستعفی ہوئے ہوں،انہوں نے آصف زرداری کا نام لئے بغیر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کسی نے نہیں سنا ہو گا کہ مرے ہوئے لوگوں کے اربوں روپے نکل آئے ہوں یا دبئی میں نوکروں کے پانچ پانچ محل نکل آئے ہوں، احتساب میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ بلوکی میں قبضہ گروپوں اور طاقتور لوگوں سے زمینوں پر قبضے چھڑوا کر جنگلات اگا رہے ہیں درخت لگانا شوق نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے،ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان دنیا کے آٹھویں نمبر پر ہے، اگر اسی طریقے سے ماحولیاتی تبدیلیاں ہوتی رہیں تو آنے والی نسلوں پر رہنا مشکل ہو جائے گا، بارشیں کم اور آلودگی بڑھتی رہے گی،پاکستان وہ ملک ہے جس میں سب سے کم جنگلات ہیں، میری جوانی میں بڑے بڑے جنگلات تھے، لیکن اب کندیاں اور چیچہ وطنی میں جنگلات نہیں رہے، چھانگا مانگا کی حالت بھی بہت بری ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں میں شہروں میں درخت کاٹے گئے، لاہور میں آلودگی بڑھی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں لاہور اور دہلی شمار ہوتے ہیں، گزشتہ دس سالوں میں ستر فیصد درخت کاٹے گئے، جس کے اکثرات بچوں اور بوڑھوں کے پھیپھڑوں پر پڑے ہیں، جنگلات کاٹنے کی وجہ سے گلیشیئر پگلھنا شروع ہو گیا ہے، آنے والی نسلوں کے مستقبل کےلئے درخت کاٹنے سے روکنا ہو گا، اگلے پانچ سالوں میں دس ارب درخت لگائیں گے، کے پی میں خیبرپختونخوا میں ایک ارب اٹھارہ کروڑ درخت لگائے تھے، ملک کو ہرا بھرا کرنا ہے، انہوں نے ڈپٹی کمشنر راجہ منصور کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے افسران نے ملک کو قبضہ گروپ سے بچانا ہے، پارکوں پر قبضے ہو رہے ہیں انہیں بچانا ہے، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب میں نے اسلام آباد میں گھر لیا تو کورنگ میں بہت بڑا پارک تھا، جو اب چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اگر درخت نہ لگائے اور مکان بناتے رہے تو سیمنٹ کی وجہ سے گرمی بڑھے گی، قبضہ گروپوں کے خلاف جہاد شروع کر دیا ہے، شہروں میں ہائی رائز بلڈنگ کی اجازت دیں گے، جتنے شہر پھیلتے جائیں گے، انہیں روشنی اور پانی دینا ہے، اگر اسی طرح شہر پھیلتے رہے تو خوراک کا مسئلہ بن جائے گا۔