اسلام آباد (لاہورنامہ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ طبقے کو قانون کے
داہرے کار میں لانے کے لیے اقدامات اٹھائے تو انہوں نے حکومت گرانے کی کوشش کی،
اشرافیہ طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالا تر ہے اور قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا.
اس لیے اشرافیہ کو قانونی داہرے میں لانے کے لیے گزشتہ دو برس میں متعدد فیصلے کیے گئے .
جس کی وجہ سے بہت شور شرابا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کو اپنی حکومت کی 2 سالہ کارکردگی سے متعلق خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ
جب حکومت سنبھالی تو ایک سمت میں توجہ دینا ناممکن تھا کیونکہ تمام ادارے بحران سے دوچار تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘پاکستان میں اشرافیہ طبقہ کے پاس تمام مراحات ہیں
جبکہ وہ ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے، شوگر مافیا بنے ہوئے ہیں اور طبقات میں توازن برقرار رکھنے کے
لیے احساس پروگرام لے کر آئے تاکہ نیم متوسطہ طبقہ بھی ترقی کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ ‘بالکل اسی طرح اسمال انڈسٹری متعدد چیلنجز سے دوچار ہیں
جو دراصل ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں جبکہ بڑے صنعت کار اپنے اثرو رسوخ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
معیشت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘میرے نزدیک تین بڑے چیلنجز ہیں جس میں پہلا 10 ارب ڈالر کا کرنٹ اکانٹ خسارہ تھا جس کا براہ راست معیشت پر منفی اثر تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو بجلی مہنگی ہوجاتی ہے، مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو غریب آدمی پستا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘گزشتہ 2 برس کی مشقت کے بعد کرنٹ اکانٹ خسارہ 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کے بعد پاکستان میں بڑا چیلنج توانائی کا ہے .
جس کی ایک بڑی وجہ سابق حکومت نے بجلی کے مہنگے معاہدے کیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر قرضوں کی قسطیں نہ دینی پڑے تو اپنے اخراجات کو کنٹرول کرکے ملک کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں، قرضوں کی قسطوں کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔