حق رائے دہی دے

بھارت کشمیریوں کو حق رائے دہی دے، یہ دونوں ملکوں کیلئے بہتر ہے، وزیراعظم

اسلام آباد(لاہور نامہ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو حق رائے دہی دے، یہ دونوں ملکوں کیلئے بہتر ہے، سکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیوں سے ملک کو محفوظ بنایا،

نیشنل سیکیورٹی پر بحث کی ضرورت ہے، نیشنل سیکیورٹی کے اہداف بہت وسیع ہیں، ہم اب تک قومی سلامتی کو صرف سیکیورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کی نظر سے دیکھتے ہیں، موسمی تبدیلی پر 6 سال پہلے کوئی بات نہیں کرتا تھا، ہم نے 10 بلین ٹری سونامی کا آغاز کیا،

فخر ہے کہ بلین ٹری سونامی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے، فوڈ سیکیورٹی ملک کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلی مرتبہ ہم 4 ملین ٹن گندم ایکسپورٹ کی، تمام ماہرین کی غذائی پیدوار سے متعلق پیش گوئیاں غلط نکلیں، ہماری سب سے زیادہ توجہ غریب کو اوپر لانے پر ہے،

غربت کے خاتمے کے حوالے سے چین کا کردار مثالی ہے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، علاقائی امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کا ہوگا، علاقائی امن کے بغیر اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، افغانستان میں امن کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں،

بائیڈن انتظامیہ بھی سمجھتی ہے جنگ مزید نہیں چلنی چاہیے۔ بدھ کو سکیورٹی ڈائیلاگ سیشن کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے وزیراعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب تک قومی سلامتی کو صرف ایک پہلو سے دیکھتے رہے ہیں کہ ہم اپنی افواج کو جتنا مضبوط کریں گے انتنا محفوظ ہوں گے لیکن اصل میں قومی سلامتی میں ایسی چیزیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جو اس قبل کسی نے نہیں سوچیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 5 سے 6 سال پہلے کوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہی نہیں کرتا تھا، لیکن ہماری آنے والی نسل کے لیے موسمیاتی تبدیلیاں ایک ایسی چیز ہے جو سب مسائل پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تجزیے موجود ہیں کہ خطرات کا شکار پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیاں ہماری نسلوں کے لیے خوفناک چیز ہے .

اور مجھے فخر ہے کہ ہماری حکومت سے اس پر اقدامات کیے لیکن اس سے قبل اسے قومی سلامتی کے تناظر میں کبھی دیکھا نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک معاملہ آگیا ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی پوری تیاری کرنی ہے.

اور قومی سلامتی کے لیے یہ بھی اہم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے بعد ہمارا ملک جس عذاب سے گزار ہے اور جس طرح کے سیکیورٹی خطرات کا ہمیں سامنا تھا جس پر ہماری سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر ہمیں محفوظ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمیں فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری حکومت کی کاوشوں جیسا کہ 10 ارب درخت سونامی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں مثلا موسمیاتی تبدیلیاں اور ہمیں فخر ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری حکومت کی کاوشوں جیسا کہ 10 ارب درخت سونامی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے وہ اقدامات کیے ہیں جو دنیا میں بہت کم ممالک نے اٹھائے ہیں اور ہم ہر اس ملک کے ساتھ شامل ہوں گے .

جو پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت اقدامات کریں گے، مجھے خوشی ہے کہ امریکی حکومت نے اپنی گزشتہ 4 سال کی پالیسی تبدیل کر کے دوبارہ ماحولیاتی معاہدے میں شمولیت اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک اور بہت بڑا مسئلہ خوراک کا تحفظ ہے،

جتنی تیزی سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے، اور اس کی وجہ سے پہلی مرتبہ ہم نے ایک سال میں 4 ملین ٹن گندم درآمد کی اور اپریل میں ہم ایک نیا اور جامع منصوبہ لے کر آرہے ہیں .

کہ ہمیں پاکستان میں غذائی تحفظ کس طرح یقینی بنانا ہے کیوں کہ 2 سال کے عرصے میں ہمیں یہ احساس ہوا کہ قوم، سرکاری محکموں میں اس کی سوچ ہی موجود نہیں۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوچ تو دور کی بات ہے کہ ہمارے پاس گندم کی پیداوار کا جائزہ ہی موجود نہیں تھا .

اور جتنے پیداواری جائزے موجود تھے وہ سب غلط نکلے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے پر ہمیں سب سے زیادہ زور دینا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا غذائی تحفظ کس طرح کرنا ہے اور زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے .

جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آبادی دیگر ممالک سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ اتنی ہی اہم چیز معیشت ہے، ہماری کمزوری یہ ہے کہ روایتی طور پر ملک میں آنے والے اور ملک سے جانے والے ڈالرز میں بہت بڑا فرق رہا ہے اور یہ خسارہ براہِ راست ہماری کرنسی پر اثر انداز ہوتا ہے اور جب کرنسی متاثر ہوتی ہے .

تو سب چیزیں متاثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سب سے پہلے اشیائے خور و نوش مہنگی ہوجاتی ہیں، تیل، بجلی، ٹرانسپورٹ، دالوں کی درآمد، گھی، خوردنی تیل سب چیزوں کا اثر غریبوں پر پڑتا ہے اور ملک میں غربت بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وہ کرنا ہے جو چین نے کیا تھا کہ انہوں نے 30 سے 35 سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر اوپر کیا ہے اور اب حالیہ حکومت نے اس بات کا جشن منایا کہ انہوں نے چین سے شدید غربت ختم کردی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ چاہے کوئی چین کو پسند کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے اور یہ سب سے زیادہ سیکیرٹی دیتی ہے کسی ملک کو کہ اس کا ہر شہری سمجھے کہ حکومت ہماری بھی فکر کرتی ہے۔