لاہور( لاہورنامہ) وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا ہے کہ نیب نے 1999 سے 2017 تک صرف 290 ارب روپے ریکور کیے تھے جبکہ ہمارے ڈھائی سالہ دور میں 484 ارب کی ریکوری ہوچکی ہے،
ہم نے اداروں میں مداخلت کی پالیسی ختم کی اور ہمارے دور میں ادارے سیاسی مداخلت سے آزاد ہوگئے،جیسے ہی شہبازشریف کے خلاف عدالت کا فیصلہ آیا تو انہوں نے تحریک کا عندیہ دیدیا اگر کل کو عدالت کا فیصلہ حق میں آگیا تو یہ دوبارہ اتحادیوں سے بے وفائی کرکے لندن چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم ماضی کا افسانہ ہے جسے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو بھی بھول جانا چاہیے۔پی ڈی ایم کو متحرک کرنے والے نواز شریف مفرور ہیں جبکہ پارٹی صدر بھی مفرور ہونا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی شہبازشریف کے خلاف عدالت کا فیصلہ آیا تو انہوں نے تحریک کا عندیہ دیدیا اگر کل کو عدالت کا فیصلہ حق میں آگیا تو یہ دوبارہ اتحادیوں سے بے وفائی کرکے لندن چلے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا شروع دن سے کوئی واضح ایجنڈا نہیں تھا، پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مگر عوام کو مطمئن نہیں کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ہر تحریک کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے این آر او اور اس کا ایک ہی جواب جو وزیراعظم نے دیا وہ ہے نو این آر او۔جہانگیر ترین کیس سے متعلق بابراعوان نے کہا کہ جب کسی کے خلاف کیس بنے تو اس کے لڑنے کی بہترین جگہ عدالت ہے،عمران خان نے کبھی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ زیادتی نہیں کی تو جہانگیرترین کے ساتھ کیوں کریں گے۔
وزیراعظم نے جہانگیرترین کے تحفظات دور کرنے کے لیے بیرسٹر علی ظفر کی صورت میں ایک رکنی کمیٹی بنائی ہے اور جو بھی حقیقت ہوگی وہ ان کی رپورٹ میں سامنے آجائے گی۔عثمان بزدار کے کارکردگی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اگر کارکردگی سے مراد ڈرامہ بازی ہے تو اس میں تو وہ ناکام ہیں مگر حقیقی کارکردگی ان کی بہترین ہے۔
پنجاب میں ڈھائی سال میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کوئی بد انتظامی ہوئی جبکہ کرونا کو اچھے طریقے سے کنٹرول کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں میں معیشت برباد ہوئی اگر معیشت کی بربادی نہیں ہوئی تھی تو پہلے دن اپوزیشن کی طرف سے یہ کیوں کہا گیا کہ میثاق معیشت کرلیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں حلف برداری سے متعلق ایک آرڈیننس زیرغور ہے جس کے مطابق منتخب رکن کو 2 ماہ کے اندر اسمبلی یا سینیٹ رکنیت کا حلف اٹھانا ہوگا دوسری صورت میں اسپیکر اسمبلی الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجے گا اور متعلقہ سیٹ پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔