اسلام آباد(لاہورنامہ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک غلام ذہن کبھی بڑے کام نہیں کر سکتا اس لیے غلامی کی زنجیریں توڑنا بہت ضروری ہے،جس طرح افغانستان میں ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑ دی گئیں۔
غلامی والے ذہن صرف نقالی کرتے ہیں آگے نہیں بڑھتے اور دوسری قوم کے کلچر کو اپنانا ذہنی غلامی ہے ،یکساں نظام تعلیم سے ملک میں فرق ختم ہو جائے گا،ماضی کے نصاب کی وجہ سے معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا، پاکستان آزاد ہوا تو یکساں نصاب تعلیم نہ لا کر ہم نے بڑا ظلم کیا،ملک میں صرف انگلش میڈیم والوں کو نوکریاں اور عزت ملتی ہے،
ایلیٹ طبقہ جس نظام سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کو تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ پیر کو وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25 سال سے وژن تھا کہ ملک میں یکساں نصاب ہو، لوگ کہتے رہے کہ یہ ناممکن ہے،برسراقتدار لوگوں کے بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں، ان ہی کیلئے ساری نوکریاں تھیں،وہی سٹیٹس سمبل تھے انگلش میڈیم کی وجہ سے معاشرہ مختلف طبقات میں بٹ چکا تھا،
سول سروسز میں بھی لوگ انگلش میڈیم کے بغیر نہیں جا سکتے تھے، انگریزوں نے انگلش میڈیم نظام تعلیم متعارف کروایا تا کہ وہ لوگ حاصل کرسکیں جن کی مدد سے یہ ہندوستان پر حکومت کر سکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آزادی کے بعد یکساں نظام نصاب نہ لا کر ہم نے سب سے بڑا ظلم کیا، پہلے انگلش میڈیم سکول کم تھے، اب یہ حالات ہیں کہ معاشرہ کئی طبقات میں بٹ چکا ہے،
کوئی حکومت ملک میں مختلف نصاب تعلیم نہیں چاہتا، سوا تین کروڑ بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں جبکہ دینی مدارس میں 26 لاکھ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، سب کا کلچر مختلف ہے، ایک طبقہ جس سسٹم سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ اس کو تبدیل نہیں ہونے دیتا جبکہ پوری دنیا میں ایک تعلیمی نصاب ہوتا ہے، پاکستان میں مختلف نصاب تعلیم چل رہے تھے یکساں نصاب کا اجراء مشکل ہے، اس میں بہت سی رکاوٹیں ڈالی جائیں گی،
کشتیاں جلا کر آگے بڑھنا ہی کامیابی کا راز ہے،ہم نے اب پیچھے نہیں مڑنا، ہم ملک کو ایک قوم بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اعلیٰ تعلیم کیلئے صرف انگلش نہیں سیکھتے ان کا پورا کلچر حاصل کرتے ہیں، یہ بہت بڑا نقصان ہے، ہم مختلف کلچرز کے غلام بن جاتے ہیں، اصل غلامی سے بری چیز ذہنی غلامی ہے،غلام ذہن کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا،
ذہنی غلامی کی زندگی زنجیریں توڑنا زیادہ مشکل ہے، غلام ذہن بڑے اقدامات نہیں کر سکتا،اصل سوچ ہی بڑے کام کرتی ہے، کسی کی کاپی کرنے کا مطلب ہم ان کے طور طریقے اپنا سکتے ہیں لیکن ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے، انگلش زبان اپنانے سے ہمارا تعلق انگریزوں سے معلم اور طالب علم جیسا ہو جاتا ہے، غلام کی زنجیر توڑنا بہت ضروری ہے، ایک نصاب تعلیم ہی اصل آزادی کا راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں سیرت نبیؐ پڑھائی جائے گی،2023-24تک سیرت نبیؐ پڑھانے کی ٹائم لائن لمبا عرصہ ہے،سیرت نبیؐ کا اجراء 6ماہ میں ممکن بنایا جائے، سیرت نبیؐ ہی ہمارے لئے کامیابی کا راستہ ہے، ہم کامیاب لوگوں کو کامیاب ہونے کیلئے پڑھتے ہیں، نبی کریمﷺ سے زیادہ کامیاب انسان کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل وارمنگ بھی انسان کی لالچ کی وجہ سے ہے،
اسی وجہ سے ہم اتنے خطرات سے دوچار ہیں،یکساں نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ضروری ہیں،اس طرح نوجوان دن کو سیاست کے طور پر استعمال کرنے والوں سے بھی آزاد ہو جائیں گے، پچیس سالوں بعد یکساں نصاب کا اجراء میرے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے۔