سمادھ رنجیت سنگھ


12اپریل 1801ء میں تمام پنجاب پر سکھ سرکار بن گئی اور پنجاب پر سکھ حکومت رنجیت سنگھ کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس وقت پنجاب کی حدود ستلج سے جہلم تک کے وسیع علاقے تک پھیل چکی تھیں
1839ء میں رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو 1844ء سے 1849ء تک کے عرصہ میں انگریز پورے پنجاب پر مکمل قبضہ حاصل کرچکے تھے. رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی عظیم الشان سمادھ کی عمارت کی بنیاد اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے رکھی۔ سمادھ کی تعمیر کیلئے سنگ مر مر اور دوسرا قیمتی پتھر ہندوستان کی مختلف جگہوں سے منگوایا گیا۔ کھڑک سنگھ کی ایک برس کے اندر موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد سمادھ کی تعمیر مہاراجہ شیرسنگھ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اس دوران سکھ سرداروں کی انگریزوں کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ جس کے باعث تعمیر کا سلسلہ مسلسل نہ رہا۔ اس عمارت کی تعمیر انگریز سرکار کے عہد میں ہوئی۔ سمادھ کی عمارت جوکہ بادشاہی مسجد اور پرانے روشنائی دروازے کے ساتھ ملحقہ ہے

عمارت میں داخل ہوتے ہی گرو ارجن دیو جی کی سمادھ اور گردوارہ ہے جس کے باعث یہ تمام جگہ ڈیرہ صاحب کہلاتی ہے
قلعہ کی جانب سے آتی گھاٹی کی مغربی سیدھ میں سمادھ کا داخلی دروازہ ہے۔ دروازے سے بائیں جانب گرو ارجن کی سمادھ ہے۔ جس کے ساتھ کبھی پرانے گردوارے کی عمارت بھی تھی۔ اس تمام جگہ کو ازسرنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس جگہ سے مغربی سیدھ میں زمینی منزل پر کمروں میں سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ ان سے اوپر کی منزل پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے

سمادھ کے اندر آتے ہی ایک بار شیش محل قلعہ لاہور کا گمان ہوتا ہے۔ سقف اور دیواروں پر شیشے کا خوبصورت کام دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کی شمال سیدھ میں گرنتھ پڑھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایشیائی مہنگا فانوس دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کے عین وسط میں خاص رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے جس کے چاروں جانب ایشیائی نفیس سنگ مر مر کے چوکھٹے ہیں۔