اسلام آباد: اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں احتجاج کیا۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی اراکین سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے ۔جمعرات کو سپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما پاکستان پیپلزپارٹی خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی نے عوام کے ساتھ مل کر جدوجہد کی، عوام سے ووٹ لے کر آنے والوں کے لیے ہمارے دل میں احترام ہے، اسپیکر کی کرسی پر چاہے کوئی بھی بیٹھا ہو ہمارے لئے قابل احترام ہے، اسپیکر کا ایک آئینی کردار ہوتا ہے، منتخب ایوان کے اسپیکر کو گھسیٹ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے آغا سراج درانی کسی چیز میں ملوث ہو لیکن یہ رویہ قابل قبول نہیں، سندھ پاکستان کا اہم صوبہ ہے، کسی اور کا کبھی احتساب نہیں ہوتا، یہ بدبختی سیاستدانوں کی ہے کہ یہ سب کوچور اچکے نظر آتے ہیں، یہ ملک ہمیں سولی پر چڑھانے کے لیے بنا ہے، اسپیکرخود کمزور ہوگا تواسمبلی کیسے چلے گی۔رہنما پی پی کا کہنا تھا کہ سیاست دان ایک دوسرے کو چور کہیں گے تو عوام کیا کہے گی، ہم ایک دوسرے کے لیے ہی مصیبت بنے ہوئے ہیں، جس ملک کا سربراہ یہ کہے کہ یہ نیا پاکستان ہے اور نئے پاکستان کا کارنامہ ہے کہ اسپیکر کو گھسیٹو۔ اسپیکر صاحب ڈریں کل آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے، اسپیکر کو ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ خبردار سعد رفیق کو بلایا، جب اسپیکر خود کمزور ہوگا تو سعد رفیق کو کیسے بلائے گا۔
خورشید شاہ نے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اسپیکر صاحب آپ کو بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری پر احتجاج کرنا چاہئے، ہم گلی گلی میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری پر احتجاج کریں گے ، یہ ملک ہمارا ہے اور ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، ہر سندھی پاکستان کے لئے جان دے گا۔خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملک کے سربراہ کو ایک ایک بیان سوچ کر دینا چاہیے، وزیراعظم نے یہ بیان کیوں دیا کہ نئے پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہوگی، کیا پہلے دہشت گردی خود کروائی جا رہی تھی۔
خورشید شاہ کے اظہار خیال کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)اور ایم ایم اے کے ارکان اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری کےخلاف نشستوں سے کھڑے ہوگئے۔خورشید شاہ کے بیان پر وزیر تعلیم شفقت محمود نے جواب میں کہا کہ ہر قوم اور ادارے میں احتساب کا عمل ہوتاہے، جس پر کسی رکن پارلیمنٹ کو اعتراض نہیں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)نے اپنے دور حکومت میں نیب قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی، نیب کو کالا قانون کہا جاتا ہے تو پھر 10 برس کے دوران اس میں تبدیلی کیوں نہیں کی گئی۔ یہ گرفتاری کیا ہمارے کہنے پر ہوئی ہے؟ اگر کوئی گرفتاری ہوئی ہے تو اس میں پارلیمنٹ کو کیوں شامل کیا جارہاہے؟، اگر احتجاج کرنا ہے تو عدالت کے سامنے جائیں، پارلیمنٹ میں احتجاج کیوں کررہے ہیں۔شفقت محمود کے اظہار خیال کے دوران اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شور شرابا جاری رکھا اور نعرے بازی کی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیں۔